حکومت نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کو ایک لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی مشروط اجازت دیدی

ماضی کی طرح حکومت کا یہ فیصلہ بھی ”فائربیک “کرئے گا جس کی قیمت عام شہریوں کو چکانا پڑے گی . مارکیٹ ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 11 جون 2024 13:32

حکومت نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کو ایک لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن چینی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 جون۔2024 ) حکومت نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) کو ایک لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے مقامی مارکیٹوں میں مستحکم قیمت پر چینی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مقامی اسٹاک برقرار رکھنے کی ہدایت کی ہے. ماہرین کا کہنا ہے ماضی کی طرح حکومت کا یہ فیصلہ بھی ”فائربیک “کرئے گا جس کی قیمت عام شہریوں کو چکانا پڑے گی ‘انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف اجازت کا ایک پروانہ درکار ہوتا ہے چینی کتنی مقدار میں برآمد کی جائے گی اس کا فیصلہ طاقتور”شوگرمافیا“کرئے گا انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اعلی عدالت کی جانب سے40روپے فی کلو سے60روپے کلو مقررکرنے کے فیصلے سے شروع ہوا تھا اور آج چینی کی خوردہ قیمت145روپے سے 160روپے فی کلو کے درمیان ہے.

انہوں نے کہا کہ حکومتوں نے ”مافیاز“ کے ٹرنز مقررکررکھی ہیں ‘پولٹری والوں نے ڈیڑھ سال دبا کرکمایا اور ریٹیل میں فی کلو قیمت 7سو سے8سو کے درمیان رہی بقرعید قریب آتے ہی پولٹری مافیا کو کسی دوسرے کو موقع دینے کا کہا گیا اورقرعہ فال ”شوگرمافیا“ کے نام نکلا ہے پولٹری کے ساتھ ساتھ اس سے قبل گندم ‘آٹا‘کرنسی ‘ڈالر یہ مافیاز خوب پیسہ کماچکے ہیں.

چینی کی برآمد کا فیصلہ وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کی زیر صدارت شوگر ایڈوائزری بورڈکے اجلاس میں کیا گیا اجلاس میں وفاقی سیکرٹری برائے صنعت و پیداوار اور پی ایس ایم اے، کسان اتحاد سمیت دیگر متعلقہ وفاقی و صوبائی نمائندگان سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز نے بھی شرکت کی. اس حوالے سے حکومت اور پی ایس ایم اے کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ابتدائی تجویز میں ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو پی ایس ایم اے کی جانب سے طلب کیے گئے 5 لاکھ میٹرک ٹن کے حجم کا صرف 30 فیصد ہے وفاقی محکمہ خوراک کے حکام نے بتایا کہ یہ فیصلہ پی ایس ایم اے کی جانب سے وزرائے خزانہ و تجارت سے کی گئی درخواست کی روشنی میں کیا گیا ہے جس میں رواں سال اضافی چینی کی پیداوار کی بنیاد پر برآمدات میں اضافے کی حمایت کی گئی تھی.

چینی کی برآمد کے فیصلے کی سمری کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔

(جاری ہے)

حکام نے اس عزم کا اظہار کیا کہ چینی کا ایکس مل ریٹ 140 روپے فی کلو سے اوپر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ ریٹیل میں ملک کے مختلف حصوں میں چینی 145 سے 160 روپے فی کلو کے درمیان فروخت کی جا رہی ہے جو گزشتہ سال حکومت کی جانب سے چینی کی برآمدات کی اجازت ملنے کے بعد 180 سے 200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی دسمبر 2023 میں مارکیٹ میں نئی پیداوار کی آمد کے بعد چینی کی قیمتوں میں کمی آئی.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے حکومت اور پی ایس ایم اے کے درمیان معاہدہ ہوگا کہ مزید چینی برآمد کرنے کا فیصلہ مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں کی بنیاد پر کیا جائے گا ذرائع کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے کی اجازت نہیں دی جائے گی شوگر انڈسٹری نے حکومت سے چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے ملک میں سرپلس چینی برآمد کرکے اربوں ڈالر لانے میں مدد ملے گی پی ایس ایم اے حکومت کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ صنعت کو 1.5 ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے.

شوگر انڈسٹری کے حکام نے اس نمائندے کو بتایا کہ پی ایس ایم اے پہلے مرحلے میں پانچ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے شوگر ایڈوائزری بورڈ کے گزشتہ تین اجلاس اسٹیک ہولڈرز کے درمیان کسی اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں حکومت کی جانب سے وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کی جانب سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور کین کمشنرز کے تعاون سے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کے پاس چینی کا 1.15 ملین ٹن اضافی اسٹاک موجود ہے جبکہ پی ایس ایم اے کا دعویٰ ہے کہ اسٹاک 1.6 ملین ٹن کا ہے.

تاہم پی ایس ایم اے کا دعوی ہے کہ وزارت خوراک اپنے اسٹریٹجک ذخائر اور کھپت کی ضروریات میں اسمگلنگ کے اثرات کو مدنظر رکھ رہی ہے جو اس لعنت کو قانونی شکل دینے کے مترادف ہے لہذا سرکاری اعداد و شمار میں اس نے چینی کا تقریبا پانچ لاکھ کم اسٹاک دکھایا ہے تاہم پاکستانی حکام غیر محفوظ سرحدوں اور صوبہ بلوچستان میں مخصوص ضروریات اور روزگار کے مواقع کی وجہ سے اسمگلنگ کو مکمل طور پر روکنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں صنعت کا دعویٰ ہے کہ اس کی پیداواری لاگت 175 روپے فی کلو تھی کیونکہ اس نے گنے کی خریداری 450 سے 500 روپے فی 40 کلو گرام کے درمیان کی تھی جو زیادہ سے زیادہ امدادی قیمت 425 روپے سے زیادہ ہے.

مارکیٹ کے ماہرین کا کہنا ہے درآمد کی اجازت کے بعد پیدا ہونے والا بحران اور قیمتوں میں اضافہ کی ذمہ داری حکومت لینے کو تیار ہوگی؟انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو بھی چاہیے کہ وہ ا س معاملے کو ایک ہی بار طے کردیں اور ملکی آمدن میں ان ”مافیاز“کے حصے کو قانونی طور پر طے کردیں تاکہ عام شہریوں کو بھی معلوم ہے اور ان ”مافیاز“ کئی سو ارب سالانہ کی ”آمدنیوں“کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے اگر ان کا اور کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا تو اس سے ٹیکس تو وصول کرلیا جائے.