رکن ممالک کی عدم ادائیگیوں سے اقوام متحدہ دیوالیہ ہو نے کے قریب

یو این ہفتہ 18 اکتوبر 2025 00:30

رکن ممالک کی عدم ادائیگیوں سے اقوام متحدہ  دیوالیہ ہو نے  کے قریب

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا ہے کہ اگر رکن ممالک نے ادارے کے حوالے سے اپنی مالی ذمہ داریاں مکمل اور بروقت پوری نہ کیں تو اس کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

سیکرٹری جنرل نے یہ انتباہ آئندہ سال کے لیے اقوام متحدہ کے باقاعدہ بجٹ کی نظرثانی شدہ تجویز پیش کرتے ہوئے جاری کیا ہے۔

3.238 ارب ڈالر کا یہ بجٹ ابتدائی طور پر ان کے تجویز کردہ بجٹ (3.715 ارب ڈالر) سے 15.1 فیصد کم ہے۔

اقوام متحدہ کے مالیاتی اور انتظامی امور کی نگران 'جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی' سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ادارے کو نہایت غیر یقینی مالی صورتحال کا سامنا ہے جس میں واجب الادا رقوم، تاخیر سے کی جانے والی ادائیگیاں اور مالی کریڈٹ کی واپسی جیسے عوامل اس کی مالی سکت کو کمزور اور بنیادی سرگرمیوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

عملے میں کمی

اقوام متحدہ کے نظرثانی شدہ بجٹ کے تحت عملے میں بھی کمی کی گئی ہے۔

ابتدائی تجویز میں 13,809 آسامیوں کے مقابلے میں یہ تعداد گھٹ کر 11,594 رہ گئی ہے جو 2025 کے مقابلے میں 18.8 فیصد کم ہے۔

یہ کٹوتیاں زیادہ بڑے محکموں اور انتظامی شعبوں پر مرکوز ہیں جبکہ ان پروگراموں کو تحفظ دیا گیا ہے جن کے ذریعے رکن ممالک کو براہ راست مدد اور تعاون فراہم کیا جاتا ہے۔

بے قابو بحران

سیکرٹری جنرل نے واضح کیا ہے کہ ادارہ اس وقت جس سنگین مالی بحران سے گزر رہا ہے وہ نہ صرف آئندہ سال بلکہ 2027 تک کے لیے بھی خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

گزشتہ سال کے اختتام پر رکن ممالک کی طرف واجب الادا رقوم کی مجموعی مالیت 760 ملین ڈالر تھی۔ ادارے نے 2026 کے آغاز میں 300 ملین ڈالر کی رقم رکن ممالک کو بطور کریڈٹ واپس کرنا ہے جس سے دستیاب مالی وسائل میں 10 فیصد کمی واقع ہو گی۔

اگر سال کے آغاز پر وصولیوں میں تاخیر ہوئی تو اخراجات میں مزید کمی کرنا پڑے گی اور ممکن ہے کہ 2027 میں 600 ملین ڈالر یعنی مجموعی بجٹ کا تقریباً 20 فیصد واپس کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ادارہ تیزی سے دیوالیہ پن کی جانب بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے بقایاجات میں کمی لانے اور کریڈٹ کی واپسی کو معطل کرنے کی فوری ضرورت کو دہراتے ہوئے کہا کہ پہلے سے کیے گئے اخراجات میں کمی کے اقدامات صرف عارضی سہولت فراہم کر سکے ہیں۔

135 ملین ڈالر کا خسارہ

رواں سال کے آغاز پر اقوام متحدہ کو اپنے بجٹ میں 135 ملین ڈالر کے خسارے کا سامنا تھا اور ستمبر کے اختتام تک صرف 66.2 فیصد مالی واجبات وصول کیے جا سکے تھے جو 2024 کے اسی عرصے میں 78.1 فیصد تھے۔

گزشتہ ماہ کے آخر تک اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے صرف 136 نے اپنی مکمل مالی ادائیگیاں کی تھیں۔ امریکہ، چین، روس اور میکسیکو سمیت اقوام متحدہ کو بڑی ادائیگیاں کرنے والے متعدد ممالک نے تاحال اپنے مکمل واجبات ادا نہیں کیے۔

'یو این 80' اقدام

اقوام متحدہ کا نظرثانی شدہ بجٹ بیک وقت مالی حقائق اور 'یو این 80' اقدام کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اقدام ایک وسیع تر اصلاحاتی منصوبہ ہے جس کا مقصد اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ کو زیادہ فعال، مضبوط اور کم خرچ بنانا ہے۔

بجٹ میں تجویز کردہ کفایتی اقدامات میں اجرتوں کے نظام کو ایک عالمی ٹیم کے تحت یکجا کرنا، مختلف انتظامی شعبوں کو سستے مقمات پر منتقل کرنا، اور نیویارک و بینکاک میں مشترکہ انتظامی پلیٹ فارم قائم کرنا شامل ہے۔

اگرچہ اس بجٹ میں مجموعی اخراجات کم کر دیے گئے ہیں مگر کئی اہم ترجیحات کو برقرار رکھا گیا ہے اور 37 خصوصی سیاسی مشن اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر سسٹم کے لیے 5 کروڑ 30 لاکھ ڈالر اور قیام امن فنڈ کے لیے 5 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کے علاقائی مراکز کو وسعت دی جائے گی جن میں ادیس ابابا، بینکاک، بیروت، ڈاکار، پاناما سٹی، پریٹوریا اور ویانا شامل ہیں۔

آگے کیا ہوگا؟

آئندہ ہفتوں میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی اس بجٹ کی تجویز پر سیکرٹریٹ کے مختلف محکموں کے سربراہوں اور پروگراموں کے اعلیٰ سطحی منتظمین کے ساتھ تفصیلی بات چیت کرے گی۔ اس کے بعد یہ کمیٹی سفارشات کے ساتھ اپنی رپورٹ جنرل اسمبلی کے مکمل اجلاس کو پیش کرے گی جبکہ بجٹ کی حتمی منظوری دسمبر کے آخر تک متوقع ہے۔

سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کی مالی صورتحال بہتر بنانے سے متعلق رپورٹ کا بھی حوالہ بھی دیا جس میں ایک ایسا طریقہ کار تجویز کیا گیا ہے جس کے تحت اگر مالی وسائل کی کمی کے باعث آئندہ سال کے بجٹ پر عملدرآمد کو خطرہ ہو تو رکن ممالک کو کریڈٹ کی واپسی معطل کی جا سکے گی۔

انہوں نے کہا ہے کہ اگر بگڑتی ہوئی مالی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی معاہدہ نہ ہو سکا تو اقوام متحدہ کے کام کے کئی اہم پہلو خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔