غزہ میں ’نصف سے زائد زرعی زمین ناقابل کاشت‘ ہو چکی

DW ڈی ڈبلیو پیر 17 جون 2024 15:20

غزہ میں ’نصف سے زائد زرعی زمین ناقابل کاشت‘ ہو چکی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جون 2024ء) خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی علاقے غزہ پٹی میں جنگ اور بمباری سے تباہی کے نتیجے میں نصف سے زیادہ زرعی زمین فصلیں اگانے کے قابل نہیں رہی۔ سیٹلائٹ تصاویر سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس فلسطینی خطے میں اراضی کے ایک بہت بڑے حصے پر اب کوئی کاشت نہیں ہو سکتی۔

آٹھ ماہ سے جاری اسرائیلی بمباری کے بعد غزہ میں بھوک پھیل چکی ہے۔ حال ہی میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے غزہ میں انسانوں کی شدید بھوک کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا تھا، ''غزہ میں اب بھوک اور قحط جیسی تباہ کن صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔‘‘

مئی 2017 ء اور 2024 ء کے درمیان لی گئی سیٹلائٹ تصویروں کا تجزیہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر (UNOSAT) اور اقوام متحدہ کی خوراک و زراعت کی تنظیم FAO نے کہا ہے کہ فوڈ سکیورٹی کے لیےانتہائی اہم غزہ کے 57 فیصد زرعی رقبے کی پیداواری صلاحیتں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

UNOSAT کے ایک حالیہ بیان کے مطابق مئی 2024 میں غزہ پٹی میں فصلوں کی صحت اور زرعی زمین کی زرخیزی پچھلے سات موسموں کے اوسط معیار کے مقابلے میں واضح تنزلی کا شکار ہوئی ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا، ''زرعی زمین کی کوالٹی کی اتنی زیادہ خرابی کی بنیادی وجوہات تنازعات سے متعلق سرگرمیاں بشمول گولہ باری، بھاری بکتر بند گاڑیوں کی نقل و حرکت اور بم دھماکے وغیرہ ہیں۔

‘‘

غزہ پٹی میں اسرائیلی زمینی اور فضائی کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے وہ دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ حماس کے عسکریت پسندوں نے 250 سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔

حماس کے خلاف اسرائیلی دفاعی افواج کی کارروائیوں کے نتیجے میں حماس کے طبی ذرائع کے مطابق اب تک 37 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزارت صحت کے مطابق وہاں بڑے پیمانے پر جنگی تباہی ہوئی ہے اور امداد کی ترسیل کے راستے بھی تقریباﹰ بند ہیں۔

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے حال ہی میں کہا تھا کہ غزہ میں پانچ سال سے کم عمر کے آٹھ ہزار سے زیادہ بچوں کو شدید غذائی قلت سے بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ک م/ ع ب، م م (روئٹرز، اے ایف پی)