پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ دوسرا آپشن نہیں ہے،میاں زاہدحسین

عالمی ادارے کے خلاف بیان بازی اقتصادی خودکشی ہے،کاروباری لاگت، مارک اپ میں کمی اور صنعت کاری کو فروغ دیا جائے،چیئرمین نیشنل بزنس گروپ

بدھ 11 ستمبر 2024 16:52

پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ دوسرا آپشن نہیں ہے،میاں زاہدحسین
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 ستمبر2024ء) ایف پی سی سی ائی پالیسی ایڈوائزری بورڈ اورنیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف خود پاکستان نہیں آیا بلکہ اسے منتیں کر کے بلایا گیا ہیکیونکہ پاکستان کے پاس دیوالیہ پن سے بچنے کے لئے کوئی دوسرا آپشن موجودنہیں۔

آئی ایم ایف کے خلاف بعض شخصیات کی بیان بازی اقتصادی خود کشی کا یقینی راستہ ہے انھیں لگام دی جائے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیرسے عوام اور کاروباری برادری پریشان ہورہی ہے جس کے منفی اثرات معیشت پرپڑنا شروع ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

ان حالات میں اہم عہدے داروں کا منفی رویہ جلتی پرتیل ڈالنے مے مترادف ہے۔

وہ آئی ایم ایف اورپاکستان کے مابین معاہدے میں رکاوٹ بن رہے ہیں حکومت انھیں روکے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ آئی اہم ایف کومرکزی حکومت اورپنجاب کی جانب سے عوام کوبجلی کے بلوں میں ریلیف دینے پراعتراض ہے اوراسے یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کا سرمایہ چینی قرضے اتارنے کے لئے استعمال کرے گا جواس کے لئے ناقابل قبول ہے۔ آئی ایم ایف نے سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے بعد اس پربھی ایسی ہی شرط عائد کی تھی اس لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ عالمی ادارہ چاہتا ہے کہ پاکستان کوقرضہ اس وقت دیا جائے جب وہ چین سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات سے بارہ ارب ڈالرکا قرضہ رول اوورکروا لے اور غیرملکی فنانسنگ میں موجودہ دو ارب ڈالرکے گیپ کو پورا کر دے تاہم دوست ممالک قرضہ رول اوورکرنے کو فی الحال تیارنہیں ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ آئی ایم ایف کے قرضہ کے بارے میں بے یقینی سے مارکیٹ متاثرہورہی ہے اس لئے حکومت کوچائیے کہ وہ عوام کواعتماد میں لے کرصورتحال کی وضاحت کرے اورحالات کومزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے اقدامات کرے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ جولائی میں ہوگیا تھا مگرقرضوں کے رول اوورمیں ناکامی اوربجلی کے بلوں پرسبسڈی کے اقدامات سے معاملات بگڑگئے ہیں۔ حکومت بجلی کی سبسڈی پربھی آئی ایم ایف کواعتماد میں نہیں لے سکی ہے جس سے مسائل بڑھے ہیں۔ مرکزی اورصوبائی حکومتوں نے واضح کیا ہے کہ عوام کوبجلی کے بلوں پرسبسڈی ترقیاتی بجٹ میں کمی کرکے دی جا رہی ہے مگر عالمی ادارے کے لئے یہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔

میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی عالمی ادارے کے خلاف غیرذمہ دارانہ بیان بازی کی گئی ہے جس سے بعض سیاستدانوں کو شہرت توملی ہوگی مگراس سے پاکستان کوبہت نقصان پہنچا ہے اوروہ اب بھی آئی ایم ایف کوتنقید کا ہدف بنا رہے ہیں جوقابل مذمت ہے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ موجودہ مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے صنعت کاری کو فروغ دینا ضروری ہے جس کے لیے ایف پی سی سی ائی کے تعاون سے کاروبار دوست پالیسیاں بنائی جائیں، کاروباری لاگت اور مارک اپ میں چار فیصد کمی کی جائے۔