گھرگھرکچرا اٹھانے کے یوسی یا ٹائون کی جانب سے پرائیویٹ لوگوں کو دئیے جانے والے اجازت نامے غیر قانونی ہیں ، سعید غنی

پیر 16 ستمبر 2024 21:19

گھرگھرکچرا اٹھانے کے یوسی یا ٹائون کی جانب سے پرائیویٹ لوگوں کو دئیے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 ستمبر2024ء) وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ گھر گھر کچرا اٹھانے کے یوسی یا ٹائون کی جانب سے پرائیویٹ لوگوں کو دئیے جانے والے اجازت نامے غیر قانونی ہے، ان کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔ ڈسٹرکٹ سینٹرل میں سال 2023-24 میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے تحت سیوریج کی 96 اسکیموں کو مکمل کیا گیا ہے، جبکہ کے ڈی اے، کراچی میگا پروجیکٹ اور 2022 تک ڈی ایم سیز کے تحت کئی سیوریج اسکیموں کو مکمل کیا گیا۔

ارکان سندھ اسمبلی اگر کسی مسئلہ کی نشاندہی کرتا ہے تو متعلقہ وزیر اور افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے نہ صرف فون اٹھائیں بلکہ ان کو حل بھی کریں۔ حب کینال کی بحالی کے کام کا آغاز کردیا گیا ہے اور یہ اگلے سال مکمل ہوجائے گا، جس سے شہر کو مزید پانی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے گی۔

(جاری ہے)

کے فور منصوبے کے چاروں حصوں پر کام جاری ہے اور اپریل 2027 تک اس سے پانی کی کراچی کو فراہمی شروع ہونے کی توقع ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز سندھ اسمبلی میں محکمہ بلدیات کے تحت سوالات کے جواب میں کیا۔ سعید غنی نے اراکین کے تحریری اور ضمنی سوالات کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ معزز رکن نے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں سیوریج کی 2022 سے 2023 تک کی اسکیموں کے بارے میں جو سوال کیا ہے تو اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ صرف کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن ہی نہیں بلکہ کے ڈی اے، کراچی میگا پروجیکٹ اور کلک کے تحت اربوں روپے کی سینکڑوں سیوریج کی اسکیمیں ڈسٹرکٹ سینٹرل میں گذشتہ 4 سال کے دوران مکمل کی گئی ہیں۔

ضمنی سوال کے جواب میں صوبائی وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ بارشوں کے باعث اندرون گلیوں میں سیوریج کے مسائل صرف ڈسٹرکٹ سینٹرل نہیں بلکہ پورے شہر کے کئی علاقوں میں ہیں، ہماری پوری کوشش ہے کہ مرحلہ وار پہلے مرحلے میں مین روڈ پر کام شروع کریں اور وہاں سے سیوریج کے نظام جو گلیوں سے آنے والے سیوریج کو ڈسپوزل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اس کو مکمل کریں جبکہ دوسرے مرحلے میں گلیوں کے مسائل کو بھی حل کیا جائے۔

ارکان کی جانب سے ایم ڈی واٹربورڈ کے ارکان اسمبلی کے ٹیلیفون تک نہ اٹھانے کی شکایات پر صوبائی وزیر نے کہا کہ معزز ارکان کو اگر کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو متعلقہ وزیر اور افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ان کے ٹیلیفون اٹھائیں بلکہ ان مسئلہ کا حل بھی کریں۔ سعید غنی نے کہا کہ مجھے تو حیرت ہے کہ یہاں اپوزیشن ارکان شکایات کررہے ہیں کہ واٹر بورڈ کے سی ای او ان کو جواب نہیں دیتے تو دوسری جانب ہمیں اپنی پارٹی کے لوگ یہ شکایات کرتے ہیں کہ سی ای او صاحب اپوزیشن والوں کی بات سنتے ہیں ہماری نہیں سنتے۔

اپوزیشن رکن مظاہر امیر کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے تحت کراچی میں 5 گاربیج ٹرانسفر اسٹیشن(جی ٹی ایس) بنانے ہیں ان میں سہراب گوٹھ پر جو جگہ مختص کی گئی تھی وہاں پر زمین کا کوئی مسئلہ آیا ہے، جس پر وہاں کام شروع نہیں ہوسکا جبکہ باقی مانندہ 4 جی ٹی ایس شرافت گوٹھ، ڈنگا موڑ، امتیاز اور گٹر باغیچہ پر کام جاری ہے اور یہ تمام جی ٹی ایس سائنٹیفک بنیادوں پر بنائے جارہے ہیں اور ان کے بننے سے اطراف کے علاقوں کے عوام کو صاف اور ستھرا ماحول دستیاب ہوسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تمام جی ٹی ایس آئندہ سال اگست تک مکمل کرلئے جائیں گے۔ ایک ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سندھ سولڈ ویسٹ جب سے بنا ہے اس وقت سے کراچی میں کچرے کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی ہے، لیکن ابھی اس میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اور سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ مل کر شہر کو صاف ستھرا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس میں ہم تمام منتخب نمائندوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ پرائیویٹ کچرا اٹھانے والے اس وقت مافیا کی صورت اختیار کرگئے ہیں اور اس وقت یہی سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ وہ کچرا اٹھا کر اپنے مطلب کا سامان اس میں سے نکال کر دوسرا کچرا نالوں میں پھینکتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ اس پر کام کرنے لئے تجویز دی ہے کہ گھر گھر سے کچرا اٹھانے کا سسٹم بنایا جائے اور اس میں متعلقہ یوسی کو شامل کیا جائے تاکہ یہ کام بخوبی انجام پاسکے اور اس سے یوسی کو بھی مالی وسائل حاصل ہوسکیں گے۔

اپوزیشن رکن کی جانب سے گھروں سے کچرا اٹھانے کے لئے یوسیز اور ٹائونز کے اجازت نامے دئیے جانے کے سوال پر سعید غنی نے کہا کہ کسی یوسی یا ٹائون کے پاس کوئی ایسا اختیار نہیں کہ وہ ایسے اجازت نامے پرائیویٹ لوگوں کو دیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو پرائیویٹ لوگ اس طرح گھر گھر اٹھاتے ہیں ان کو روکنا چاہیے۔ ایک اور ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کا کام بڑھ رہا ہے تو ہمیں قوانین بنا کر ان کے لئے کورٹس بھی بنانی پڑیں گی اور قوانین بھی واضح کرنا ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ حب کینال کی بحالی کا کام شروع کردیا گیا، جس سے اس وقت جو 70 ملین گیلن یومیہ پانی وہاں سے دستیاب ہے وہ بڑھ کر 100 ایم جی ڈی تک بڑھ جائے گی اور اس کے ساتھ ہی ایک نئی کینال کا کام بھی شروع کیا گیا ہے، جس سے شہر کو مزید 100 ایم جی ڈی پانی کی فراہمی ممکن ہوسکے گی اور یہ منصوبہ آئندہ سال تک مکمل کرلیا جائے گا۔

کے فور کے حوالے سے اپوزیشن رکن کے ضمنی سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اس منصوبے کے حوالے سے ماضی میں جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے، اس منصوبے کو 25 ارب سے آج 243 ارب کے ہونے پر بھی وہ معاملات ہے، جو عام عوام کو نہیں معلوم کیونکہ جب یہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا، اس میں پانی کی سپلائی، پاور سپلائی سمیت کئی چیزیں نہیں رکھی گئی تھی۔ انہوں نے کہا اس وقت اس منصوبے کے چار علیحدہ علیحدہ حصہ ہیں اور ان چاروں پر اس وقت کام جاری ہے اور انشا اللہ یہ منصوبہ اپریل 2027 تک مکمل ہوسکے گا۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایس تھری منصوبے کی بھی بدقسمتی کے فور کی طرح کی ہے کہ جب یہ منصوبہ بنایا گیا تو یہ 6 ارب کا تھا لیکن اس میں بھی متعدد حصوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ منصوبہ جو 180 ایم جی ڈی سیوریج کے پانی کو ٹریٹ کرنے کی بجائے صرف 35 ایم جی ڈی یومیہ ٹریٹ کرکے سمندر میں ڈالا جارہا ہے۔ اس منصوبے کو مکمل کرنے پر 14 ارب کی لاگت آئے گی اور اس سال سندھ حکومت نے اس پر 3 ارب روپے بجٹ میں مختص کئے ہیں۔