امید کی کرن: غزہ جنگ میں والدین کھونے والے بچوں کا یتیم خانہ

یو این منگل 8 اکتوبر 2024 00:00

امید کی کرن: غزہ جنگ میں والدین کھونے والے بچوں کا یتیم خانہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اکتوبر 2024ء) غزہ میں ایک سال سے جاری جنگ کی تباہ کاریوں اور ہولناک انسانی المیوں میں وہاں کے بعض یتیم بچوں کو امید کی کرن دکھائی دی ہے۔

علاقے کی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں اب تک 41 ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ غزہ کی 23 لاکھ آبادی کا بیشتر حصہ بے گھر ہو کر صرف 10 فیصد علاقے تک محدود ہو چکا ہے۔

ایسے سنگین حالات میں لوگوں کی بہبود کے لیے نئے اقدامات کا مقصد تاریکی میں امید کی شمع روشن کرنا ہے۔

غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کے مغرب میں ساحلی علاقے المواصی کی پناہ گزین بستی میں مقیم استاد محمد کلاخ نے ایسا ہی قدم اٹھاتے ہوئے ایسے خاندانوں کے بچوں کے لیے 'یتیم خانہ' قائم کیا ہے جن کے مرد اور روزی کمانے والے افراد اس جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔

(جاری ہے)

البرکہ یتیم خانے میں اس وقت 400 فلسطینی خاندان قیام پذیر ہیں جو جنوبی غزہ سے نقل مکانی کر کے آئے ہیں۔ محمد کلاخ نے غزہ میں یو این نیوز کے نمائندے زید طالب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کے ذریعے ان خاندانوں کو پناہ، خوراک، پانی اور طبی امداد کے ساتھ ان کے بچوں کو تعلیمی اور سماجی خدمات بھی مہیا کی جاتی ہیں جس میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی مدد بھی شامل ہے۔

انہوں ںے بتایا کہ یتیم خانے میں یونیسف کے تعاون سے ایک طبی مرکز اور سکول بھی قائم کیا گیا ہے۔ ادارہ بچوں کو کتابیں اور لکھنے پڑھنے کا دیگر سامان مہیا کرنے اور اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرنے میں مدد دیتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ فی الوقت چھوٹے خیموں میں قائم اس سکول کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تاکہ بچے آرام دہ ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔

UN News/Ziad Taleb
جنگ میں والدین کھو دینے کے بعد تالین حناوی البرکہ یتیم خانہ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

17 ہزار یتیم بچے

محمد کلاخ نے بتایا کہ غزہ میں بچوں کی بہت بڑی تعداد کو تحفظ کی ضرورت ہے۔ اندازے کے مطابق علاقے میں 17 سے 18 ہزار یتیم بچے موجود ہیں۔ ان میں بیشتر تعداد ان بچوں کی ہے جن کے ساتھ ان کے خاندان کا کوئی فرد نہیں ہے۔

طالین الحناوی کے والد اس جنگ میں ہلاک ہو گئے تھے اور اب وہ البرکہ یتیم خانے میں خود کو نئی زندگی کا عادی بنا رہی ہیں۔

یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے جب انہوں نے اپنے والد کی ہلاکت کے بارے میں بتایا تو ان کے چہرے پر صدمہ اور دکھ نمایاں تھا۔

طالین کا کہنا تھا کہ بابا (والد) ان سے بہت پیار کرتے تھے اور انہیں یقین نہیں آتا کہ وہ شہید ہو چکے ہیں۔ اس جنگ میں پورے کے پورے خاندان ختم ہو رہے ہیں۔

ان کی خواہش ہے کہ وہ غزہ شہر میں اپنے گھر واپس جائیں تاکہ زندگی معمول پر آ سکے اور وہ دوسروں کی طرح تعلیم حاصل کریں اور قرآن حفظ کر سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ جنگ سے پہلے وہ اپنے گھر میں رہتے تھے اور انہوں نے کبھی کسی کو کوئی زحمت نہیں دی تھی۔

UN News/Ziad Taleb
یتیم خانہ میں مقیم نادہ الغریب بتاتی ہیں کہ ان کے کیمپ پر فضائی حملہ میں ان کے والد اور اکلوتا بھائی ہلاک ہو گئے تھے جبکہ ان کی زخمی والدہ ہسپتال میں داخل ہیں۔

والد کو کھونے کا دکھ

اسی یتیم خانے میں رہنے والی نادہ الغریب اپنی داستان سناتے ہوئے کہتی ہیں کہ جنگ نے ان سے والد اور اکلوتا بھائی چھین لیا ہے۔ خان یونس کے پناہ گزین کیمپ پر ہونے والے جس حملے میں ان کی ہلاکت ہوئی اس میں وہ خود اور ان کی والدہ بھی زخمی ہو گئی تھیں۔ حملے کے بعد وہ لوگ تین روز تک وہیں پھنسے رہے۔

نادہ نے بتایا کہ ان کے خاندان نے شمالی غزہ سے خان یونس کی جانب نقل مکانی کی تھی جس کے بعد وہ لوگ وہاں پھنس گئے۔

یتیم خانے کے بہن بھائی

حملے کے بعد نادہ اور ان کی والدہ خان یونس کے مغرب میں واقع صنعتی علاقے میں چلے گئے جہاں ان کا علاج ہوا لیکن وہ ایک مرتبہ پھر پھنس گئے۔ وہاں سے جیسے تیسے نکل کر انہوں نے رفح کا رخ کیا اور پھر انہیں وہاں سے بھی نکلنا پڑا اور بالآخر وہ البرکہ یتیم خانے میں آ گئے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ جگہ ان کے لیے دوسرے گھر کی مانند ہے کیونکہ یہاں ہر سبھی کی داستان اور تکالیف ایک سی ہیں۔

ان کا کہنا ہےکہ یتیم خانے میں سب لوگ بہن بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔ تمام مائیں سب کی مائیں ہیں اور تمام بچے ایک دوسرے کے ساتھ بہن بھائیوں جیسا برتاؤ رکھتے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے سے اور اپنی زندگیوں سے پیار ہے۔ اگرچہ اپنے قریبی عزیزوں کو کھو دینا بہت بڑا دکھ ہے لیکن اس کے باوجود یہاں لوگ زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

نادہ نے بتایا کہ ان کے والد بہت اچھے اور مہربان آدمی تھے جو اپنے خاندان سے بہت محبت کرتے تھے۔

وہ انہیں کبھی مشکل میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ انہیں پانی بھر کر لانا پڑتا ہے اور ایسے کام کرنا ہوتے ہیں جو عام طور پر مرد کرتے ہیں لیکن ان کے پاس والد کو کھونے کے بعد کوئی اور راستہ نہیں بچا۔

© WFP/Ali Jadallah

14 ہزار بچوں کی ہلاکت

یونیسف نے بتایا ہے کہ غزہ کی جنگ نے بچوں اور خاندانوں کو ہولناک تباہی سے دوچار کیا ہے۔

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، علاقے میں اب تک 14 ہزار بچے ہلاک اور مزید ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔

اندازے کے مطابق غزہ میں 19 لاکھ یا 90 فیصد لوگ بے گھر ہیں۔ ان میں نصف تعداد بچوں کی ہے جن کے لیے ضرورت کے مطابق پانی، خوراک، ایندھن اور ادویات دستیاب نہیں ہیں۔

ادارے نے شمالی علاقے سمیت غزہ بھر میں انسانی بنیادوں پر فوری اور پائیدار جنگ بندی، تمام بچوں اور خاندانوں کو انسانی امداد تک تیزرفتار، محفوظ اور بلارکاوٹ رسائی کی فراہمی، اغوا کیے گئے تمام بچوں کی فوری، محفوظ اور غیرمشروط رہائی اور بچوں کو ہلاک و زخمی کیے جانے سمیت ان کے حقوق کی پامالیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔