سابق صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری کی عمران ریاض ، سید ذیشان عزیز ، شاکر اعوان ، مقدس فاروق سمیت دیگر صحافیوں کیخلاف مقدمات کی شدید مذمت

آزادی صحافت پر قدغن کی اس سے بدترین مثال میں نے آج تک نہیں دیکھی جو یہ حکومتِ وقت کر رہی ہے، حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے؛ سینئر صحافی و سابق صدر لاہور پریس کلب کا بیان

پیر 21 اکتوبر 2024 13:56

سابق صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری کی عمران ریاض ، سید ذیشان عزیز ، ..
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 21 اکتوبر 2024ء ) لاہور پریس کلب کے سابق صدر اور سینئر صحافی اعظم چوہدری نے اردو پوائنٹ کے جنرل مینیجر سید ذیشان عزیز سمیت دیگر صحافیوں کیخلاف مقدمات کی شدید مذمت کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور میں پنجاب کالج واقعے کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے کئی صحافیوں کے خلاف مقدمات کا اندراج کیا گیا، جن میں اردو پوائنٹ کے جی ایم سید ذیشان عزیز، سینئر صحافی و تجزیہ کار عمران ریاض خان، کورٹ رپورٹر شاکر اعوان، سینئر صحافی سمیع ابراہیم، مقدس فاروق اعوان، احتشام عباسی، اینکر پرسن جمیل فاروقی، فرح اقرار اور دیگر شامل ہیں، سابق صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری نے ان مقدمات کی شدید مذمت کی ہے۔



انہوں نے کہا ہے کہ آج کے دور میں صحافیوں پر اس قسم کی پابندیاں لگائی گئی ہیں کہ اگر کوئی صحافی آئین اور قانون کے مطابق بات کرتا ہے تو اس کے خلاف مقدمات درج کیے جارہے ہیں، انہیں چپ کروانے کیلئے مختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں، اگر کوئی اخبار یا ٹی وی سے منسلک ہے تو ان کی نوکریاں ختم کروائی جارہی ہیں۔

(جاری ہے)

سابق صدر لاہور پریس کلب نے بتایا کہ اس کی 2 حالیہ مثالیں ہم نیوز سے نکالے گئے سینئر صحافی کورٹ رپورٹر شاکر اعوان ہیں جن سے زبردستی پہلے استعفیٰ لینے کی کوشش کی گئی، پھر انہیں ٹرمینیشن کا خوف دلایا گیا کیوں کہ وہ سوشل میڈیا پر آئین و قانون کے مطابق بات کرتے ہیں اور جو خامیاں ہیں ان کی نشاندہی کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ جی این این سے نوکری سے ہٹائی جانے والی ثمینہ پاشا ہیں جو وہاں اپنا شو کرتی تھیں لیکن چوں کہ وہ بھی سوشل میڈیا پر متحرک ہیں اور ان کی بات بھی اس حکومت کو پسند نہیں آتی تو انہیں بھی نوکری سے فارغ کردیا گیا۔

اعظم چوہدری نے کہا کہ سب سے بدترین مثالیں وہ ہیں جو پنجاب حکومت نے صحافیوں کے خلاف کیا کہ لاہور میں پنجاب کالج والا واقعہ ہوا تو جن صحافیوں نے صرف اس کی کوریج کی یا حکومت کو کوئی اچھا مشورہ دیا، شاکر اعوان اور عمر دراز گوندل نے صرف کوریج کی، اردوپوائنٹ کے سید ذیشان عزیز نے صرف ایک ٹویٹ کرکے حکومت کو اس معاملے کو ہینڈل کرنے کیلئے کوئی اچھی تجویز دی، اس کے علاوہ ایاز امیر، سمیع ابراہیم جیسے سینئر لوگوں سمیت تقریباً 36 کے قریب افراد کیخلاف صرف اس واقعے پر اپنا کوئی نقطہ نظر دینے پر سنگین دفعات کے تحت ایک ایف آئی آر درج کرلی۔

سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ آزادی صحافت پر قدغن کی اس سے بدترین مثال میں نے آج تک نہیں دیکھی جو یہ حکومتِ وقت کر رہی ہے، حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، آپ میڈیا پر جتنی زیادہ پابندیاں لگائیں گے اس سے میڈیا کا نقصان ہو نہ ہو لیکن بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج ضرور تباہ ہورہا ہے، جس کی ذمہ دار یہ حکومت ہے اور اس کو پاکستان کا امیج بچانا چاہیئے نہ کہ یہ حکومت دن بدن پاکستان کے چہرے کو مسخ کرنے پر تلی ہوئی ہو۔