سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی میں تعصب و تنگ نظری کی بنیاد پر بلوچ ملازمین کو مختلف حربوں سے تنگ کرنے کی مذمت

ہفتہ 16 نومبر 2024 22:43

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 نومبر2024ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے ضلعی سینئر نائب صدر ملک محی الدین لہڑی اور ڈپٹی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر علی احمد قمبرانی نے اپنے ایک بیان میں سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی میں لسانیت اور تعصب کی بنیاد پر اقربا پروری اور غیر قانونی احکامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ یونیورسٹی بلوچستان کے خواتین کیلئے واحد اعلی تعلیمی ادارہ ہے جس میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئی وائس چانسلر اپنی تقرری کے بعد یونیورسٹی میں تمام سٹاف اور ملازمین کے ساتھ یکساں اور متوازی سلوک کرتیں اور لسانی تعصب کو ختم کر کے سب کو ایک نظر سے دیکھتی تاکہ تعلیمی ادارے کے اندر وسیع النظری کو فروغ ملتی اور برابری و برادری کے خوشگوار ماحول میں ادارہ مزید ترقی کرتا مگر افسوس کہ وی سی صاحبہ لسانیت کی بنیاد پر ایمپلائیز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے علاوہ کسی اور کی بات سننے کی روادار نہیں ہے اور وہ مخصوص لوگوں کو نواز رہی ہیں اور دیگر سٹاف اور ملازمین کو خاطر میں نہیں لا رہی ہیں جو کہ ایک وائس چانسلر کے شان اور کردار کے خلاف ہے اور ناقابل برداشت عمل ہے جسکی اجازت ایک اعلی درجے کے تعلیمی ادارے میں ہرگز نہیں دی جا سکتی ہے۔

(جاری ہے)

ہم ہر اس ناروا عمل کی بھر پور مذمت کریں گے جس سے ادارہ پر منفی اثرات پڑے یا وہ بحرانی کیفیت کا شکار ہو جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یونیورسٹی میں بلوچ اور دیگر مقامی ملازمین کو لاوارث نا سمجھا جائے۔ شنید میں آیا ہے کہ ادارے کے 700 ملازمین کو نظر انداز کر کے مسلسل ایک مخصوص ایسوسی ایشن کے 10 سے 15 عہدیداروں کو تمام سیکشنز میں کھپائے جا رہے ہیں جس سے اکثریتی ملازمین میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔

وی سی سیکرٹیریٹ میں بھی مخصوص افراد کا قبضہ ہے جو کسی کو وی سی صاحبہ سے ملنے نہیں دیتے ہیں تاکہ نئی وی سی کو باقی ملازمین سے دور رکھ کے اپنی من مانی کر سکیں اور اپنے مخصوص ایجنڈوں کی تکمیل کرے۔ انہوں نے گورنر بلوچستان، وزیراعلی بلوچستان، وزیر تعلیم اور اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کے اندر لسانی بنیادوں پر کیے گئے تمام غیر قانونی و غیر اخلاقی احکامات کا نوٹس لے کر وی سی صاحبہ کو تنبیہہ کر کے دوبارہ انصاف پر مبنی احکامات جاری کیے جائے بصورت دیگر ہم عوامی احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔