اللہ والےکبوتروں کی کہانی،جن کا درگاہوں پربسیرا ہے،یہ کبوتربہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہیں،حکیم حفیظ بلوچ

اتوار 24 نومبر 2024 15:40

ملتان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 نومبر2024ء) اولیا اللہ کی سرزمین ملتان میں بزرگ ہستیوں کی کئی درگاہیں موجود ہیں جہاں کبوتر درباروں کا جزو اور یہاں کی ثقافت کا اہم حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ویسے تو کبوتروں کی کئی اقسام اور نسلیں ہیں لیکن ملتان کی سرزمین کےلئے جو نسل لازم وملزوم ہے وہ جنگلی کبوتر کی ہے جسے سرائیکی زبان میں "لٹھا"کبوتر بھی کہتے ہیں۔

جنگلی کبوتروں کا زیادہ تر بسیرہ یہاں کی درگاہوں پر رہتا ہے۔جن کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ فقیر کبوتر ہیں،اس لئے زائرین اپنی روح کی تسکین کےلئے لٹھے کبوتروں کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، قیمت ادا کرکے دانا ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے غول در غول ہزاروں کی تعداد میں غٹر غوں کرتے درگاہوں کے صحن میں اتر آتے ہیں اور یہ سلسلہ پورا دن جاری رہتا ہے۔

(جاری ہے)

ویسے کبوتروں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔کبوتر پروری کا ذکر مغل اعظم شہنشاہ اکبر کے نام کے ساتھ جڑتا ہے۔اس سے قبل بھی کبوتر بادشاہوں کےلئے پیغام رسانی یا جاسوسی کا کام سرانجام دیتے تھے۔موجودہ دور میں لاہور،کراچی،ملتان ،ڈیرہ غازیخان،راجن پور سمیت سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں اب بھی کبوتر بازی کے مقابلے اور ٹورنامنٹ تک ہوتے ہیں۔

ان سے ہٹ کر جنگلی کبوتر کی مستی ،عادات اور رحجانات عام کبوتر سے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔یہ آزاد صفت ہوتے ہیں اس لئیے انہیں جنگلی کبوتر کہتے ہیں .عام خیال یہی ہے کہ لٹھے کبوتروں کا گوشت انسانی صحت کےلئے بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔حکمت کےعلاج میں جنگلی کبوترکواہمیت حاصل ہے۔معروف حکیم حفیظ بلوچ نے اے پی پی کو بتایا کہ لٹھےکبوترکے گوشت سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹھنڈ یا سردی سے جنم لینے والی بیماریاں یا فالج اورلقوے کے مریضوں کو ہم جنگلی کبوترکا گوشت تجویزکرتےہیں۔یہ بات واضح ہے کہ ان کبوتروں کا کوئی باقاعدہ ٹھکانہ نہیں ہوتا۔یہ درباروں اورپرانی عمارات پررات بسرکرتے ہیں۔حضرت بہاالدین زکریا ملتانی کے درگاہ کے پہلو میں 22 سال سے مقیم ایک عقیدت مند نے بتایا کہ یہ جنگلی نہیں اللہ والےکبوتر ہیں۔میں صبح شام ان کو دانا کھلاتا ہوں اوراللہ کو راضی کرتا ہوں۔/395

متعلقہ عنوان :