خواتین کے خلاف تشدد ایک سنگین عالمی بحران

یو این منگل 10 دسمبر 2024 11:30

خواتین کے خلاف تشدد ایک سنگین عالمی بحران

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 10 دسمبر 2024ء) خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے جو روزانہ کی بنیاد پر دنیا کے ہر کونے میں جاری ہے۔ یہ تشدد نہ صرف متاثرین کی جسمانی، ذہنی اور معاشی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ ان کی سماجی زندگی میں مکمل اور مساوی شرکت کی راہ میں بھی ایک بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔

اس تشدد کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے اثرات صرف متاثرہ خاتون تک محدود نہیں رہتے۔ یہ تشدد ان خواتین کے خاندانوں پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور اکثر ان خواتین میں سماجی رشتے قائم کرنے اور معاشرے کا فعال رکن بننے کی استطاعت کو محدود کر دیتا ہے۔ کووڈ 19 جیسی ہنگامی صورتحال، ماحولیاتی تبدیلیاں، مسلح تنازعات اور دیگر بڑے بحران خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کو مزید سنگین بنا دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

صنفی تشدد اور اس کی اقسام

صنفی بنیاد پر تشدد سے مراد ایسا تشدد ہے جو کسی خاتون پر صرف اس کے خاتون ہونے کی بنیاد پر کیا جائے یا جس کے اثرات خواتین پر غیر متناسب طور پر پڑیں۔ یہ تشدد جسمانی، ذہنی یا جنسی نقصان پہنچانے، دھمکیاں دینے، جبر کرنے یا آزادی سے محروم کرنے جیسے اعمال پر مشتمل ہوتا ہے۔

خواتین کے خلاف تشدد کی بنیادی وجوہات میں پدد شاہاہی، صنفی امتیاز اور مردوں اور خواتین کے درمیان طاقت اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم شامل ہیں جو خواتین کو کمزور اور محروم رکھنے کے نظام کو مضبوط کرتی ہیں۔

© UNICEF/Shehzad Noorani
تشدد صرف خواتین کو ہی نہیں بلکہ بچوں سمیت ان سے متعلقہ افراد دیگر افراد کو بھی متاثر کرتا ہے

گھریلو اور قریبی ساتھی کا تشدد

گھریلو یا قریبی ساتھی کا تشدد خواتین کے خلاف تشدد کی سب سے عام اقسام میں شامل ہے۔

یہ ایسا جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تشدد ہے جو خواتین پر ان کے شوہر، شریکِ حیات یا قریبی رشتہ دار کرتے ہیں اور یہ عمومی طور پر لوگوں کی نظروں سے دور گھریلو ماحول کے اندر کیا جاتا ہے۔ خواتین اس قسم کے تشدد کی سب سے زیادہ شکار ہوتیں ہیں مگر یہ ان تک محدود نہیں۔ اس کا شکار بچے اور بوڑھے لوگ بھی بنتے ہیں۔ گھریلو تشدد کی چند نمایاں اشکال:

  • جسمانی تشدد: مار پیٹ، چہرے پر تھپڑ، جلانے یا دم گھوٹنے جیسے عمل۔

  • جنسی تشدد: زبردستی جنسی تعلق جس میں شادی شدہ ساتھی کے ذریعہ جنسی زیادتی بھی شامل ہے۔
  • نفسیاتی تشدد: دھمکیاں، خوف پیدا کرنا یا سماجی تنہائی پر مجبور کرنا۔
  • معاشی تشدد: مالی وسائل پر مکمل قابو پانا اور خواتین کو کام یا تعلیم سے روکنا۔

جنسی تشدد

جنسی تشدد میں خاتون کی مرضی کے بغیر اس چھونا یا ایسا کرنے کی دھمکیاں دینا، غیر اخلاقی جنسی حرکات، جبری جنسی تعلق، ہراسگی اور دیگر مظالم شامل ہیں۔

یہ تشدد اکثر خواتین کے حقوق کو کچلنے اور ان کی زندگیوں پر قابو پانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس کی مزید اقسام کچھ ہوں ہیں:

جنسی ہراسانی

جنسی ہراسگی کا عمل زبانی، غیر زبانی اور جسمانی طور کے علاوہ تحریری یا الیکٹرانک مواصلات کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے۔ اس میں زبانی ہراسگی (یعنی نازیبا یا فحش لطیفے، جنسی کہانیاں یا غیر مناسب تبصرے کرنا)، جسمانی ہراسگی (یعنی بغیر اجازت چھونا یا جان بوجھ کر کسی کے قریب سے گزرنا) اور سماجی دباؤ (یعنی بار بار ملاقات یا جنسی تعلقات کے لیے اصرار کرنا یا شخصیت، لباس، جسمانی خدوخال یا ظاہری شکل پر جنسی نوعیت کے تبصرے کرنا) شامل ہیں۔

© UNICEF/Vincent Tremeau
کانگو میں جنسی زیادتی کا شکار ایک خاتون۔

ریپ

ریپ ہر اس عمل کو کہتے ہیں جو کسی فرد کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنے کے لئے زبردستی یا دھوکہ دہی سے کیا جائے۔ اسے زبردستی، دھمکی، فریب، جبر، منشیات یا الکوحل کے ذریعے یا کسی کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ عمل کسی اجنبی یا واقف شخص، شریک حیات یا مسلح تنازعات کے دوران کیا جاتا ہے۔ اس کے نتائج میں جسمانی نقصان کے علاوہ شدید نفسیاتی صدمہ اور سماجی بدنامی شامل ہیں۔

’اصلاحی ریپ‘

اصلاحی ریپ وہ گھناوٴنا عمل ہے جس کا نشانہ کسی فرد کو اس کے جنسی رجحان یا صنفی شناخت کی بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد متاثرہ شخص کو زبردستی ہم جنس پرستی یا غیر معمولی صنفی شناخت سے باز رکھنا اور سماجی طور پر قبول شدہ رویے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔

جنسی استحصال

جنسی استحصال اس وقت ہوتا ہے جب طاقت، اختیار یا اعتماد کے غلط استعمال کے ذریعے کسی کو جسم فروشی یا جنسی عمل پر مجبور کیا جائے۔

یہ زبردستی، دھمکی، یا کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اکثر مالی، جسمانی یا سماجی فوائد کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ عمل انسانی اسمگلنگ کی سب سے زیادہ پائی جانے والی شکل ہے۔

مسلح تنازعات میں جنسی تشدد

مسلح تنازعات کے دوران خواتین کے خلاف جنسی تشدد انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں شامل ہے۔ اس میں منظم ریپ (یعنی جنگ یا تنازع کے دوران خواتین کو منظم طریقے سے ریپ کا نشانہ بنانا)، جنسی غلامی (یعنی خواتین کو زبردستی جنسی طور پر غلام بننے پر مجبور کیا جانا)، جبری حمل (یعنی جنگی حکمت عملی کے تحت خواتین کو زبردستی حاملہ کیا جانا) اور دیگر جرائم جیسے جبری بانجھ پن، زبردستی اسقاطِ حمل یا صنفی بنیاد پر بچوں کو قتل کرنا شامل ہیں۔

UNIC Mexico/Eloísa Farrera
میکسیکو میں قتل ہونے والی خواتین کی یاد میں بنائی گئی ایک دیوارگیر تصویر کے پاس متاثرہ خواتین کی مائیں کھڑی ہیں۔

خواتین کا قتل (فیمیسائیڈ)

قتل نسواں یا فیمیسائیڈ سے مراد خواتین یا لڑکیوں کو صرف ان کی جنس کی بنیاد پر قتل کرنے کا عمل ہے جو خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کی سب سے وحشیانہ شکل ہے۔ یہ تشدد اکثر غیرت کے نام پر، انسانی اسمگلنگ کے دوران یا گھریلو تشدد کے پس منظر میں ہوتا ہے۔ اس عمل میں اکثر خواتین کی لعش کو کسی عوامی مقام پر پھینک دیا جاتا ہے جس کا مقصد اپنی حاکمیت کا اظہار کرنا اور دیگر خواتین پر اپنا خوف قائم کرنا ہوتا ہے۔

انسانی سمگلنگ

عالمی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کو جنسی استحصال اور جبری مشقت کے لیے سمگلنگ کا شکار بنایا جاتا ہے۔ انسانی سمگلنگ ایک عالمی مسئلہ ہے جس میں لوگوں کو منافع کی خاطر منڈی میں اشیا کی طرح بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ اس عمل میں شکار ہونے والے لوگوں پر جسمانی اور جنسی تشدد کیا جاتا ہے اور اکثر ان کے دستاویز اس سے چھین لئے جاتے ہیں تاکہ انھیں من مانے کام کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

اگرچہ اس عمل کے دوران مردوں اور بچوں کو بھی شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں خواتین کے مختلف قسم کے تشدد کا شکار ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

نقصان دہ روایات

نقصان دہ روایات انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزیاں ہیں جو خواتین اور بچوں کی جسمانی، جنسی اور ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ ان میں خواتین کے اعضا کو مسخ کرنا، کم عمری کی شادی، کنوارے پن کا ٹیسٹ کرنا اور غیرت کے نام پر حملے جیسی روایات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ان میں خوراک کی حد بندیاں (یعنی زبردستی حد سے زیادہ یا کم کھانا کھلانا)، باندھ کر مقید کرنا، جسم پر قبائلی نشانات بنانا، مار پیٹ کرنا، سنگسار کرنا، بیوہ ہونے پر زبردستی سماجی علیحدگی کا اطلاق کرنا، خواتین پر جادو ٹونے کے الزامات لگانا اور جہیز کے لئے تشدد کرنے جیسے عمل شامل ہیں۔

Unsplash/Priscilla Du Preez
ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کیے گئے تشدد سے خواتین پر دوسری اقسام کے تشدد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ٹیکنالوجی کا استعمال

ڈیجیٹل دنیا نے خواتین کے خلاف تشدد کی نئی شکلیں پیدا کی ہیں۔ ان میں آن لائن ہراسگی، سائبر بلیئنگ اور نجی معلومات کو افشاء کرنا یا اس کا خوف دلا کر خواتین پر قابو حاصل کرنا شامل ہیں۔ یہ تشدد خاص طور پر صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور آن لائن مقامات میں فعال خواتین کے خلاف کیا جاتا ہے۔

ٹیکنالوجی کے ذریعے کئے جانے والے خواتین کے استحصال کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ خواتین پر ہونے والے دوسری اقسام کے تشدد (جیسے گھریلو تشدد) کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔

اس کے علاوہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تشدد کی نئی اقسام پیدا کی جاتی ہیں، جیسے ٹیکنالوجی کے ذریعے خواتین پر ہر وقت نظر رکھنا یا مصنوعی ذہانت کے ذریعے ان کی نازیبا تصاویر بنانا اور ان کو پھیلانا شامل ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون پہلے انگریزی زبان میں یو این ویمن کی ویب سائٹ پر پوسٹ ہوا تھا۔