افغانستان: طالبان کے تصور اسلام سے افغانستان میں جبر کا راج

یو این جمعہ 13 دسمبر 2024 20:15

افغانستان: طالبان کے تصور اسلام سے افغانستان میں جبر کا راج

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 دسمبر 2024ء) افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتنبائیوا نے کہا ہے کہ ملک میں طالبان حکمرانوں کی جانب سے کڑے اسلامی قوانین اور افغانی ثقافت کے نفاذ سے خواتین اور لڑکیوں کو غیرمعمولی پابندیوں کا سامنا ہے۔

سلامتی کونسل کو افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، شہری آزادیاں سکڑ رہی ہیں اور انسانی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔

ملک میں لڑکیوں پر چھٹے درجے سے آگے تعلیم کے حصول پر پابندی کو اب 1,200 یوم مکمل ہونے والے ہیں۔ اس دوران خواتین اور لڑکیوں کو تقریباً ہر شعبہ زندگی سے بڑی حد تک خارج کر دیا گیا ہے۔

Tweet URL

خواتین پر طبی تعلیم کے دروازے بند ہونے سے ملک میں نظام صحت کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے جس کے ناصرف خواتین اور لڑکیوں بلکہ مردوں اور لڑکوں پر بھی مہلک اثرات ہوں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ وہ طالبان سے ان احکامات پر نظرثانی کے لیے کہہ چکی ہیں۔

بنیادی آزادیوں کا خاتمہ

خصوصی نمائندہ نے کونسل کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' قانون کے نفاذ سے بنیادی آزادیاں ختم ہو گئی ہیں۔ حکام عوامی مقامات، غیرسرکاری اداروں کے دفاتر، مساجد، بازاروں حتیٰ کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی ان احکامات کو سختی سے نافذ کر رہے ہیں۔

خواتین کی کاروباری سرگرمیوں پر پابندی سے ان کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہو گئے ہیں، انہیں ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے اور ان کے خاندانوں بالخصوص بچوں پر اس کے شدید منفی اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔

خواتین پر محرم (مرد سرپرست) کے بغیر گھر سے باہر نکلنے پر عائد کردہ پابندی صحت کی سہولیات تک ان کی رسائی میں رکاوٹ ہے جبکہ مردوں کو داڑھی منڈوانے اور 'مغربی طرز' پر حجامت بنوانے سے روک دیا گیا ہے۔

ذرائع ابلاغ پر پابندیاں

روزا اوتنبائیوا نے بتایا کہ ذرائع ابلاغ اور صحافیوں پر پابندیوں سے افغان معاشرے کو وسیع تر نقصا ہو رہا ہے۔ صحافتی اداروں پر کئی طرح کی پابندیاں نافذ کی گئی ہیں جن سے آگاہ، مشمولہ، متحرک اور ترقی پذیر معاشرے کی تعمیر کے لیے صحافیوں کی اہلیت متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق جیسے موضوعات پر عوای سطح پر بات چیت کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو گوناگوں پابندیوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

UN Photo/Eskinder Debebe
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتنبائیوا نے ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل میں اپنی رپورٹ پیش کر رہی ہیں۔

انسانی بحران

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی رابطہ کار ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ افغانستان کو شدید نوعیت کے انسانی بحران کا سامنا ہے۔ رواں سال ملک کی تقریباً نصف آبادی غربت کا شکار تھی۔ موسمی شدت کے واقعات نے روزگار کو نقصان پہنچایا اور ان کے باعث ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے، بڑے پیمانے پر مویشیوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ فصلیں اور گھر تباہ ہو گئے۔

ملک میں بنیادی خدمات کی فراہمی بھی محدود ہے اور تقریباً نصف آبادی طبی سہولیات تک رسائی سے محروم چلی آ رہی ہے۔ بھوک اور غذائی عدم تحفظ بھی عام ہے۔ ملک میں ایک تہائی آبادی کو حسب ضرورت خوراک اور غذائیت میسر نہیں جبکہ غذائی قلت کے جسمانی اثرات کو دیکھا جائے تو حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ملک کی نصف آبادی کو مدد کی ضرورت ہے اور اس وقت افغانستان کو سوڈان کے بعد دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران درپیش ہے۔

ان حالات میں ملک کو بین الاقوامی مدد کی اشد ضرورت ہے۔

عالمی برادری کی ذمہ داری

ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے لیے امدادی کارروائیوں کی خاطر مالی وسائل کی فراہمی میں اضافہ ممکن بنائے، امداد کی تقسیم میں حائل رکاوٹوں اور پابندیوں کو دور کرنے کے لیے عالمی برادری سے مدد لی جائے اور اس ضمن میں خواتین پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے زراعت، صحت عامہ اور ضروری بنیادی خدمات کی فراہمی کے دیگر شعبوں میں افغانستان کو انسانی امداد سے بڑھ کر مدد دینے کے لیے بھی کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغانوں کو بہت بڑے مسائل کا سامنا ہے لیکن انہوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔

رابطہ کار کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے اپنے حقوق، آزادیوں اور مستقبل کے لیے جدوجہد ترک نہیں کی اور دنیا کو بھی ان کی مدد سے ہاتھ نہیں کھینچنا چاہیے۔ انہیں اس مشکل سے نکالنے کے لیے عالمی برادری کو یکجہتی اور حقیقی انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی مدد جاری رکھنا ہو گی۔