موت اور تباہی کا سامنا کرتے غزہ کے مکینوں کے لیے جنگ بندی امید کی کرن

یو این ہفتہ 18 جنوری 2025 01:00

موت اور تباہی کا سامنا کرتے غزہ کے مکینوں کے لیے جنگ بندی امید کی کرن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 جنوری 2025ء) اسرائیل اور حماس کے مابین غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان ہونے کے بعد 15 ماہ سے تباہی کا سامنا کرنے والے بے گھر فلسطینی پرامید ہیں کہ اب ان کی تکالیف ختم ہو جائیں گی۔

غزہ بھر میں اسرائیل کی عسکری کارروائیوں کے باعث فلسطینیوں کی تقریباً 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ اس میں بہت سے لوگوں نے کئی مرتبہ نقل مکانی ہے اور بعض کو 10 مرتبہ اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

اسرائیل کی بمباری کے باعث غزہ کا بیشتر علاقہ کھںڈر بن چکا ہے جہاں گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں سمیت 60 فیصد عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ متواتر فضائی حملوں کے نتیجے میں طبی نظام تباہی کے دھانے پر ہے، ٹھوس فضلہ تلف کرنے کا نظام باقی نہیں رہا جس سے لوگوں کی صحت اور ماحول کو سنگین خطرات لاحق ہیں جبکہ پانی کی فراہمی کے نظام کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔

(جاری ہے)

UN News

بحالی کی امید

غزہ میں یو این نیوز کے نمائندے نے وسطی علاقے نصیرت میں پناہ گزین لوگوں سے بات چیت کی ہے جنہوں نے انہیں بتایا کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنے علاقوں اور گھروں کو واپس جانے اور زندگیاں بحال کرنے کے لیے پرامید ہیں۔

ام محمد حنون کو نہایت مشکل انسانی حالات کے باوجود یہ امید ہے کہ وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ شمالی غزہ کے علاقے الکرمہ میں واپس جا سکیں گی حالانکہ انہیں خبر ملی ہے کہ وہاں ان کا گھر ڈرون حملے میں تباہ ہو چکا ہے۔

انہوں نے اپنے گھر کا ملبہ ہٹانے اور اپنی زمین پر خیمہ لگا کر رہنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ وہ اس امید کا اظہار کرتی ہیں کہ ایک دن غزہ سابقہ صورت پر بحال ہو جائے گا اور لوگوں کی زندگی معمول پر آ جائے گی۔

بہتر زندگی کی خواہش

غزہ شہر سے نقل مکانی کرنے والے نوعمر سمیع ابو طہون جنگ بندی کی خبر سن کر کہتے ہیں کہ وہ اپنے علاقے میں واپس جا کر والد سے ملنا اور بہتر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد انہوں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا اور وہ ان کی بے حد کمی محسوس کرتے ہیں۔

سمیع نے بتایا کہ 'جب میری والدہ مجھے نماز پڑھنے کو کہتی ہیں تو میں انکار کر دیتا ہوں کیونکہ میں اپنے والد کے ساتھ ہی نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔

'

UN News

موت، تباہی اور تھکن

غزہ شہر سے نقل مکانی کرنے والے ایمان ابو ردوان وسطی غزہ کی پناہ گاہ میں ایک بوسیدہ خیمے میں رہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اب لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہتے ہیں۔ اب موت اور تباہی کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

انہوں نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم تھک چکے ہیں۔ ہم نے شدید ترین گرمی اور جما دینے والی سردی جھیلی ہے۔ بچے ہلاک ہو رہے ہیں۔ میں رات کے وقت ایک نومولود بچے کی چیخیں سن کر جاگ جاتا ہوں جو سردی سے ٹھٹھرتا رہتا ہے۔

مجھے امید ہے کہ ہمارے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ ہم اس سے بہتر زندگی کے حق دار ہیں۔'

غزہ شہر کے مغربی علاقے میں الشاطی پناہ گزین کیمپ سے نقلم مکانی کرنے والے محمد القوقہ نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر جنگ بندی کے نتیجے میں غزہ کے لوگوں کو اپنے گھروں میں واپس آنے کا موقع مل جائے اور علاقے کی تعمیر ہو جائے تو تب بھی ان کی تکالیف ختم نہیں ہوں گی۔

انہوں نے بتایا کہ لوگوں پر اس طویل جنگ کے شدید نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہمارے خاندانوں اور بچوں نے جو حالات اور واقعات دیکھے ہیں وہ کبھی پیش نہیں آنا چاہیے تھے۔

UN News

انسانی امداد میں اضافے کی توقع

اتوار کو جنگ بندی پر عملدرآمد شروع ہونے کی صورت میں یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔

اس جنگ کے دوران انسانی امداد لانے والے بہت سے قافلوں کو لوگوں تک پہنچنے میں تاخیر کا سامنا رہا یا انہیں اسرائیلی فوجی چوکیوں سے گزرنے کی اجازت نہ مل سکی۔ دسمبر 2024 میں اسرائیل کے حکام کے ساتھ بات چیت میں طے ہونے والی 70 فیصد امدادی کارروائیوں کو بعدازاں روک دیا گیا۔

گزشتہ جمعرات کو عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا تھا کہ 80 ہزار ٹن خوراک غزہ کی سرحد پر پڑی ہے یا راستے میں ہے جس سے 10 لاکھ لوگوں کی غذائی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔

ادارے کا کہنا ہے کہ اس خوراک کو ضرورت مند لوگوں تک پہنچانے کے لیے امدادی ٹیموں اور سازوسامان کو بلارکاوٹ نقل و حرکت کی اجازت ملنا ضروری ہے۔

© UNRWA

'انروا' کی طبی خدمات

اسرائیل کی متواتر بمباری کے نتیجے میں غزہ کا طبی نظام تقریباً تباہ ہو گیا ہے اور 12 ہزار سے زیادہ شدید بیمار اور زخمی لوگ بیرون ملک علاج کی اجازت ملنے کے منتظر ہیں۔

بدھ کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اس کے شراکت داروں نے 12 مریضوں کو یورپی ہسپتالوں میں پہنچایا۔ ادارے نے مزید ممالک سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ جنگ بندی کے بعد خصوصی علاج کے متقاضی مریضوں کو مدد فراہم کریں۔

غزہ میں جنگ کے دوران امدادی کارکن انتہائی خطرناک حالات میں کام کرتے رہے ہیں۔ اکتوبر 2023 کے بعد تقریباً 900 کارکنوں کی ہلاکت ہوئی جن میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے 265 اہلکار بھی شامل ہیں۔

خطرات کے باوجود 'انروا' کے 1,000 سے زیادہ امدادی کارکن غزہ بھر میں طبی مراکز اور عارضی علاج گاہوں میں روزانہ 16 ہزار سے زیادہ لوگوں کو صحت کی سہولیات مہیا کر رہے ہیں۔ ان کارکنوں میں بیشتر کا تعلق مقامی آبادی سے ہے۔