اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جنوری 2025ء) بھارت نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پڑوس میں ہونے والی پیش رفت پر اس کی گہری نظر ہے اور ضرورت پڑنے پر ’مناسب کارروائی‘ کی جائے گی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین بڑھتے فوجی تعاون کے حوالے سے نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان سے جب جمعہ کے روز سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے پڑوس میں ہونے والی پیش رفت، خاص طور پر قومی سلامتی پر اثر انداز ہونے والے واقعات، پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے۔
بھارت کا سخت رد عمل
وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئی عسکری تعاون سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا، ’’ہم ملک اور خطے میں تمام سرگرمیوں کے ساتھ ہی اپنی قومی سلامتی کو متاثر کرنے والی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر حکومت مناسب اقدامات کرے گی۔
(جاری ہے)
بھارتی ترجمان نے میڈیا بریفنگ کے دوران مزید کہا، ’’ہم ایک جمہوری، ترقی پسند اور جامع بنگلہ دیش کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تاکہ بھارت اور بنگلہ دیش کے لوگ خوشحال ہو سکیں۔‘‘
حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش نے سرحد پر بھارت کی جانب سے باڑ لگانے پر کئی بار اعتراض کیا ہے، اس تعلق سے ایک سوال کے جواب میں رندھیر جیسوال نے کہا کہ اس کا مقصد ’انسانوں اور مویشیوں کی غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنا‘ ہے۔
بھارت کے معروف میڈیا ادارے ہندوستان ٹائمز نے نام ظاہر نہ کرنے والے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستانی وفد میں میجر جنرل شاہد عامر، جو آئی ایس آئی میں شعبہ تجزیہ کے ڈائریکٹر جنرل ہیں اور بیجنگ میں پاکستان کے دفاعی اتاشی کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، اس وفد کا حصہ تھے۔
البتہ پاکستان نے ان خبروں پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، جبکہ بنگلہ دیش نے آئی ایس آئی مذکورہ افسر کے دورے سے انکار کیا ہے۔
بھارتی میڈیا میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی فوج کے سینیئر اہلکاروں پر مشتمل ایک مختصر وفد نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، جس کا بنگلہ دیش کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فورسز انٹیلیجنس (ڈی جی ایف آئی) کے ایک سینیئر اہلکار نے ایئر پورٹ پر استقبال کیا۔
اس حوالے سے بھارتی میڈیا میں اس امر کو زیادہ اچھالا جا رہا ہے کہ پاکستانی وفد میں فوجی اہلکاروں کے ساتھ ہی ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل آف انالیسز میجر جنرل شاہد عامر بھی شامل تھے۔
کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی وفد نے جمعے کے روز بنگلہ دیش کا اپنا دورہ مکمل کیا۔پاکستان نے اس خبر پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، تاہم بنگلہ دیش کے سرکاری خبر رساں ادارے بی ایس ایس نے یہ ضرور کہا، ’’آئی ایس آئی کے سربراہ بنگلہ دیش کے دورے پر نہیں آئے۔ پریس اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبریں درست نہیں ہیں۔‘‘
’مرغی کی گردن‘ اور بھارتی تشویش
بعض بھارتی میڈیا اداروں نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ پاکستانی فوج کے اہلکاروں پر مشتمل اعلیٰ حکام کے اس وفد نے شمالی بنگلہ دیش میں رنگ پور ڈویژن کا بھی دورہ کیا۔
واضح رہے کہ رنگ پور کا یہ علاقہ بھارت کے اہم اسٹریٹجک 'چکنس نیک' کے قریب واقع ہے۔عسکری اعتبار سے اہم اس علاقے کو سلی گوڑی کوریڈور بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بھارتی ریاست مغربی بنگال میں زمین کی ایک تنگ پٹی ہے، جو بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کو ملک کے باقی ماندہ علاقوں سے جوڑتی ہے۔
’مرغی کی گردن‘ کے نام سے معروف اس تنگ پٹی کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر یہ بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے، تو شمال مشرقی بھارت کی تمام ریاستیں بھارت سے جدا ہو جائیں گی۔
یہ چین کی سرحد سے بھی کافی قریب ہے، اس لیے بھارت کو اور زیادہ تشویش ہے۔بنگلہ دیش اور پاکستان میں فروغ پاتے تعلقات
بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد سے محمد یونس کی قیادت والی عبوری حکومت نے پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے اور اب وہ اسلام آباد سے قریب سمجھا جاتا ہے۔ اس بات پر بھارت میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
جنوری کے وسط میں بنگلہ دیشی فوج کے سیکنڈ ان کمان لیفٹیننٹ جنرل قمر الحسن نے اپنے کئی سینیئر اہلکاروں کے ساتھ پاکستان کا غیر معمولی دور کیا تھا اور پاکستانی فوجی سربراہ سے ملاقات کی تھی۔
پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق اس وقت دونوں جرنیلوں نے ’مضبوط دفاعی تعلقات‘ کی اہمیت پر زور دیا اور اس بات پر توجہ مرکوز کی دونوں برادر ممالک کے درمیان پائیدار شراکت داری کو ’بیرونی اثرات کے خلاف لچکدار‘ رہنا چاہیے۔
پاکستانی آرمی چیف نے جنوبی ایشیا اور وسیع تر خطے میں ’امن و استحکام‘ کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ کوششوں کی اہمیت کا اعادہ کیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک باہمی دفاعی اقدامات کے ذریعے علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت میں تعطل کا شکار رہے۔
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر بار بار پاکستان کی طرف سے امن کی کوششوں کو مسترد کیا۔ لیکن ان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں واضح بہتری آئی ہے۔دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات کو بحال کرنے کے لیے گزشتہ چند ماہ کے دوران قیادت کی سطح پر کئی ملاقاتیں کی ہیں۔