ایک دوسرے کے مذہب کا احترام اچھے معاشرے کے قیام کیلئے ناگزیر ہے، وائس چانسلر خواجہ فرید یونیورسٹی

جمعہ 7 فروری 2025 20:40

رحیم یارخان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 فروری2025ء) خواجہ فرید یونیورسٹی میں ہفتہ برائے بین المذاہب ہم آہنگی بھر پور انداز سے منایا گیا۔ اس حوالے سے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا جبکہ گزشتہ روز مرکزی تقریب یونیورسٹی کے سول آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس میں مسیحی، ہندو برادری اور دیگر مذاہب کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عامر اعظم خان نے کہا کہ ہمیں یہ یاد رکھناچاہیے کہ ایک دوسرے کے مذاہب کے احترام میں ہی پوری کائنات کا مفاد اور تحفظ پنہاں ہے۔

دنیا کا پرامن باسی ہونے کے ناطے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے عقائد، مذہبی نظریات، شخصیات اور مقدس کتب کا احترام کریں۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا کی اکثریت ہر قسم کی شدت پسندی سے بالاتر ہوکر امن، برداشت اور رواداری کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جب تک ہم مختلف مذاہب، نسلوں، رنگوں اور زبانوں کو قبول نہیں کریں گے ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔

آج دنیا پر ان لوگوں کی حکمرانی ہے جنہوں نے دنیا میں بسنے والے تمام افراد کو بلا تفریق قبول کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر افسر راٹھور،بانی رکن این جی او "LIOS-SOIL" ویانا، آسٹریا،مسیحی مذہبی رہنما و انچارج ڈے کیئر چرچ، چرچ آف پاکستان، ملتان ڈائیوسیز پادری کامران شفقت ،ہندو مذہبی رہنما و رکن ضلعی بین المذاہب ہم آہنگی کمیٹی گرو سُکھ دیو جی ،ایگزیکٹو ڈائریکٹر ریڈز،شاہد سلیم، پروجیکٹ منیجر ورنن انتھونی، ممبر ڈویژنل امن کمیٹی بابر زمان ،علامہ ریاض نوری،عبدالروف ربانی،ایمانوئل شریف ، پریتم داس م سورج کمار اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات نے کہا کہ پاکستان میں مساجد ،مندراورکلیسا سب کو تحفظ حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اجتماعی کوششوں سے ہی معاشرے میں رواداری اور بھائی چارے کو قائم رکھاجاسکتا ہے۔مقررین نے کہا کہ خواجہ فرید یونیورسٹی کی بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کوششیں قابل تعریف ہیں اور اس سلسلے میں مزید اقدامات کئے جارہے ہیں۔تقریب کا انعقاد اقوام متحدہ کے ہفتہ برائے بین المذاہب ہم آہنگی کے تحت تمام مذاہب کی نمائندہ تنظیموں کے اشتراک سے کیاگیا۔ تقریب میں ڈاکٹر شاہد حبیب، ڈاکٹر مظہر حسین بھدرو، ڈاکٹر جام ظفر، ڈاکٹر نعیم اللہ، ڈاکٹر شازیہ عندلیب سمیت اساتذہ اور طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔