اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 فروری 2025ء) اسلام آباد سے منگل 11 فروری کو موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے متعدد پاکستانی تارکین وطن کی یورپ پہنچنے کی کوشش میں لیبیا کے ساحل پر کشتی ڈوبنے کے واقعے میں ہونے والی ہلاکت پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
کشتی ڈوبنے کا تازہ ترین واقعہ
گذشتہ ہفتے کے روز یہ کشتی لیبیا کے مغربی شہر زاویہ کی مارسا ڈیلا بندرگاہ پر الٹ گئی۔
لیبیا میں مقامی حکام کے مطابق کشتی میں سوار یورپ جانے والے درجنوں تارکین وطن، جن میں متعدد پاکستانی بھی شامل تھے، ہلاک یا لا پتہ ہو گئے۔افریقی پانیوں میں بچا لیے گئے تارکین وطن کی پاکستان واپسی
لیبیا کی ہلال احمر نے کہا کہ اس کی ٹیموں نے دس مہاجرین کی لاشیں برآمد کیر لی ہیں۔
(جاری ہے)
کوسٹ گارڈز دیگر لاپتہ افراد کی تلاش کر رہے ہیں۔
ادھر پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس کشتی پر 65 افراد سوار تھے جبکہ متاثرہ پاکستانیوں کے بارے میں پتہ لگانے اور مزید معلومات حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔وزیر اعظم کے احکامات
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے وزارت خارجہ کو حکم جاری کیا ہے کہ یورپ پہنچنے کی کوشش میں کشتی میں سوار ہلاک اور لاپتہ ہونے والے پاکستانیوں کی شناخت کے عمل کو جلد مکمل کیا جائے اور متاثرہ افراد کے خاندانوں کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نے انسانی اسمگلروں یا ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا جو اس ''گھناؤنے کام میں ملوث ہیں۔‘‘
جنہیں بہتر مستقبل کی تلاش موت تک لے گئی
مغربی افریقہ میں کشتی الٹنے کا یہ تازہ ترین واقعہ، پچھلے واقعے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں پیش آیا ہے۔ گزشتہ واقعے میں بھی درجنوں پاکستانی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔
بچ جانے والوں نے کیا بتایا؟
اس تازہ ترین واقعے سے پہلے پچھلے مہینے بھی مغربی افریقہ سے اسپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی الٹ گئی تھی اور اس میں سوار 50 افراد میں سے 44 پاکستانی تھے۔ بچ جانے والے پاکستانی تارکین وطن نے گھر واپسی پر اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کی کشتی الٹی نہیں تھی اور درحقیقت اسمگلروں نے ادائیگی کے تنازعے پر 43 تارکین وطن کو ہلاک کر دیا تھا۔
انسانی اسمگلنگ، یونان میں ایک اور پاکستانی ہلاک
غیر قانونی راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں ہر سال سینکڑوں پاکستانی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ انسانی اسمگلروں کی مدد سے یورپ پہنچنے کے لیے خطرناک زمینی اور سمندری راستے کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے یہ پاکستانی اچھی نوکریاں اور بہتر زندگی کے متلاشی ہوتے ہیں۔
لیبیا کے ساحلی علاقے کی اہمیت
لیبیا، جس کی سرحدیں چھ ممالک سے ملتی ہیں، بحیرہ روم کے ساتھ اس کا ایک طویل ساحل ہے۔ یہ ملک 2011 ء میں طویل عرصے سے برسر اقتدار آمر معمر قذافی کے خلاف نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد سے افراتفری کا شکار ہے۔
تب سے تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک ایک غیر معمولی اہمیت کے حامل ٹرانزٹ ملک کے طور پر ابھرا ہے۔
خاص طور پر افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جنگ اور غربت سے تباہ حال ممالک کے باشندے تارکین لیبیا کے روٹ سے یورپ کا رُخ کر رہے ہیں۔عراق پاکستانی تارکین وطن کے لیے پرکشش کیوں بنتا جا رہا ہے؟
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے لاپتہ مائیگرنٹس یا تارکین وطن کے پراجیکٹ کے اندازوں کے مطابق 2024 ء میں لیبیا سے کم از کم 674 تارکین وطن کی ہلاکت اور 1000 سے زیادہ کے لاپتہ ہونے کی اطلاع موصول ہوئی تھی۔
ک م/ ع س(اے پی)