اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقسیم نے بنچ اور بار میں خطرناک تقسیم پیدا کردی

چیف جسٹس کو ججز تقرری کا عمل فوری روک دینا چاہیے تھا، جوڈیشل کمیشن کا ججز تقرری کا متنازع فیصلہ عدلیہ پر سنسنی اثرات پیدا کرتا رہے گا۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 11 فروری 2025 18:57

اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقسیم نے بنچ اور بار میں خطرناک تقسیم پیدا کردی
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 11 فروری 2025ء ) نائب امیر جماعتِ اسلامی، سیکرٹری جنرل مِلی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے سپریم کورٹ، ہائیکورٹ ججز تقرری کے متنازع طریقہ کار پر وکلاء کے احتجاج پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا ججوں کی تقرری کا متنازع فیصلہ عدلیہ پر دُور رَس سنسنی اثرات پیدا کرتا رہے گا۔ پارلیمنٹ کے منظور کردہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف جب عدالتِ عظمٰی میں پٹیشن زیرِ سماعت ہے تو طریقہ کار سے بالاتر ہوکر انصاف کے تقاضوں کے مطابق چیف جسٹس کو ججوں کی تقرری کا عمل روک دینا چاہیے تھا۔

عدلیہ کی آزادی کو غلامی میں بدلنے کے لیے حکومت، اسٹیبلشمنٹ نے تو ناپسندیدہ اقدامات کیے لیکن اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقسیم نے بنچ اور بار میں بھی خطرناک تقسیم پیدا کردی ہے، جس کے نظامِ عدل اور عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بہت خطرناک نتائج ہونگے۔

(جاری ہے)

26 ویں آئینی ترمیم کے بعد پیکا ایکٹ میں ترامیم بھی فاشزم مسلط کرنے کا تسلسل ہے۔

تمام سیاسی، جمہوری اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں کا آئین، عدلیہ اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے یک آواز ہونا اِس فاشزم کا سدِ باب کرے گا۔ لیاقت بلوچ نے کِسانوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی غلط حکمتِ عملی سے گندم اور کپاس کے کاشت کار دیوالیہ ہوگیا۔ ہر فصل میں کِسان کا نقصان اگلے مراحل میں زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گا۔

اِسی طرح پی آئی اے، پاکستان ریلوے، اسٹیل ملز، واپڈا کو تباہ کرنے کا ذمہ دار بھی حکمران طبقہ اور ظالم بیوروکریسی ہے۔ زراعت، قومی اداروں کے تحفظ اور کِسانوں، محنت کشوں کا تحفظ حکومت کی آئینی اور قومی ذمہ داری ہے۔ ملکی وسائل کے ذریعے قومی آمدن میں اضافہ کے ذرائع کو تباہ کرکے قرضوں، امداد کی بھیک اور ذِلت و رُسوائی کا کشکول اقتصادی غلامی کا راستہ ہے۔

قومی سطح پر معیشت کی بحالی کے لیے قومی میثاقِ معیشت لازم ہوچکا ہے۔ لیاقت بلوچ نے قومی حکومت اور ٹیکنوکریٹس کی حکومتیں قائم کرنے کے مؤقف کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئینِ پاکستان میں اِس کی کوئی گنجائش نہیں، 2024ء میں چوری شدہ عوامی مینڈیٹ کو بازیاب کرالیا جائے تو ملک میں سیاسی، پارلیمانی اور انتخابی استحکام آجائے گا، وگرنہ آئین سے انحراف پر مبنی جو بھی اقدام ہوگا اُس سے اسٹیبلشمنٹ کے وارے نیارے ہوتے رہیں گے۔

متنازع جعلی حکومت کی طرح غیرآئینی حکومتی سیٹ اَپ بھی بحرانوں میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ قومی سیاسی جمہوری قوتیں آئین کے اندر فراہم کردہ روڈ میپ کی پابندی کرنے اور اِسے نافذ کرنے پر اتفاق کریں۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ 12 فروری 2025ء کو اسلام آباد می مِلی یکجہتی کونسل آزاد جموں و کشمیر کی تنظیم کے لیے کونسل کا اجلاس ہوگا۔ مِلی یکجہتی کونسل کی ممبر جماعتوں کے نمائندے آئندہ 3 سال کے لیے صدر، سیکرٹری جنرل اور دیگر عہدیداران کا انتخاب کریں گے۔ مرکزی کمیٹی انتخابی عمل کی نگرانی کرے گی۔