ملکی قرضوں کا حجم 88 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوگیا ہے،میاں زاہد حسین

بے جا ٹیکس مراعات کی وجہ سے قرضے بڑھتے رہیں گے،ملک قرضوں پرعیاشی کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا ہے،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

پیر 24 فروری 2025 17:12

ملکی قرضوں کا حجم 88 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوگیا ہے،میاں زاہد حسین
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 فروری2025ء)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، ایف پی سی سی ائی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ غیرملکی قرضوں کا حجم 33 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوگیا ہے جبکہ پاکستان پر ٹوٹل قرضوں کا حجم 88 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس میں گورنمنٹ، نان گورنمنٹ آئی ایم ایف ، اور انٹر کمپنی قرضے شامل ہیں۔

قرضوں کا ایک مناسب حد تک حصول ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے جبکہ غیر ضروری قرضوں کوختم کئے بغیرملک کا آگے بڑھنا مشکل ہے۔ ملک کی آبادی میں دو فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے بڑھتی ہوئی ابادی کے لیے ہسپتال، روڈ، سکول بجلی اور گیس کی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو ٹیکس لینا ضروری ہے لیکن ٹیکسوں کے حصول میں کمی سے حکومت کو ملکی اور غیر ملکی قرضے لینا پڑتے ہیں جب تک بے جا ٹیکس مراعات کا سلسلہ جاری رہے گا قرضے بڑھتے رہیں گے۔

(جاری ہے)

ملک اب اس عیاشی کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کودرپیش مسائل میں سب سے بڑا چیلنج غیرملکی قرضوں کا بوجھ ہے۔ ٹیکس آمدن میں کمی کی وجہ سے یہ بوجھ مسلسل بڑھتا جا رہا ہیجسکی وجہ ملک میں ٹیکس نہ دینے کا کلچرہے۔ معیشت کا بڑا حصہ ٹیکس ادا نہیں کرتا جبکہ ٹیکس مراعات کا سلسلہ بھی عروج پر ہے۔

اسکیعلاوہ بہت سے افراد اورکمپنیاں اپنا سرمایہ اور کاروبار بیرون ملک منتقل کررہی ہیں جس سے محاصل میں مزید کمی آرہی ہے۔ بہت سے لوگ پاکستان سے پیسہ کما کراسکا بڑا حصہ ملک سے باہرمنتقل کر دیتے ہیں جس کی وجہ لوگوں کا اپنے ملک پر عدم اعتماد ہے سیاسی استحکام ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ معاشی اصلاحات کا عمل تیز کرنے اورٹیکس سسٹم کوبہتربنانا ضروی ہے۔

جب تک ملک میں کاروباری ماحول بہترنہیں ہوگا اس وقت تک سرمایہ کاری نہیں ہوگی نہ معیشت ترقی کرے گی اورنہ ہی عوام کوروزگارملے گا۔ حکومت رائیٹ سائزنگ کر کے اخراجات میں اربوں روپے کی کمی لا رہی ہے تاہم نجکاری کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ محاصل کا سارا بوجھ عوام، صعنت، تنخواہ داروں اورخدمات کے شعبے کواٹھانا پڑرہا ہے جبکہ ریٹیل، ہول سیل، زراعت، ایس ایم ایزاورٹرانسپورٹ سمیت کئی شعبے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کوتیارنہیں ہیں۔

عوام اورکاروباری برادری ٹیکس کا مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہے ہیں اس لئے حکومت کے پاس ٹیکس کے نظام کوجدید خطوط پر استوارکرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ اب قرضوں کا حصول بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ رائیٹ سائزنگ کے ساتھ صفر کارکردگی والے غیرضروری ادارے ختم کئے جائیں کیونکہ وہ قومی خزانے پرایک بوجھ ہیں۔

مختلف حکومتوں نے یہ محکمے بنائے ہی اس لئے تھے کہ ان میں اپنی پارٹی کے کارکنوں کوکھپایا جا سکے۔ اسکے علاوہ محکمہ تعلیم سمیت مختلف محکموں میں لاکھوں گھوسٹ ملازمین بھی موجود ہیں جو کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں جن کوفارغ کیا جانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ سرکاری محکموں میں کرپشن بھی بہت بڑھ گئی ہے اوررشوت کے بغیر جائزکام بھی نہیں ہوتا جس کا خاتمہ ضروری ہے ورنہ اقتصادی ترقی کی کوششیں اکارت جائیں گی۔