پیسہ بہت ہے ،انصاف کیلئے آخری حد تک جاﺅں گی، وجہیہ عامر

مصطفی عامر کی والدہ نے دیت کی پیشکش کو مسترد کر دیا، کسی صورت میں مالی معاہدہ قبول نہیںکرونگی، میں چاہتی ہوں کہ کیس قانونی طور پر مکمل ہو اورمجرم کو سزا ہو، مقتول کی والدہ کی گفتگو

Faisal Alvi فیصل علوی بدھ 26 فروری 2025 12:21

پیسہ بہت ہے ،انصاف کیلئے آخری حد تک جاﺅں گی، وجہیہ عامر
کراچی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26فروری 2025)کراچی ڈیفنس میں دوست کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان مصطفی عامر کی والدہ وجہیہ عامر نے دیت کی پیشکش کو مسترد کر دیا ، ان کا کہنا ہے کہ پیسہ بہت ہے ،وہ دیت نہیں لیں گی اور انصاف کیلئے آخری حد تک جاﺅں گی،اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میںچاہتی ہوں کہ کیس قانونی طور پر مکمل ہو اور کسی بھی صورت میں مالی معاہدہ قبول نہیں کرونگی۔

جب ہم انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بیٹھے تھے تو ارمغان کی والدہ آئی تھیں اور انہوں نے مجھ سے کہا صلح کرنے آئی ہو تو میں نے کہا صلح کس بات پر کرنے آئی ہیں۔آپ ارمغان کو کہے میرے بیٹے کا بتا دیں وہ کہا ںپر ہیں توانہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور کہا ارمغان کیوں تاوان کی کال کرے گا اس کے پاس تو بہت پیسہ ہیں۔

(جاری ہے)

میں نے کہا میں نہیں جانتی ارمغان کے پاس کتنا پیسہ ہے۔

، اس سے کہیں میرے بیٹے کا بتا دیں میں ساری ایف آئی آرز واپس لے لو گی۔میرے بیٹے کو نفرت اور حسد کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، لیکن میں انصاف کے لیے آخری دم تک لڑوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ قاتل سامنے آگیا ہے۔ تحقیقات سے مطمئن ہوں۔ اللہ کرے گااس کوسزا ہوگی۔شواہد ایک ایک کر کے سامنے آ رہے ہیں اور قاتل بے نقاب ہو چکا ہے۔انہوں نے کہا مصطفی بی بی اے کا طالب علم تھا اور گریجویشن مکمل کرنے سے صرف تین ماہ دور تھا۔

اسے کاروں کا بے حد شوق تھا۔ میں خوش ہو میرے بیٹے کے ذریعے ایک بڑا جرم بے نقاب ہو رہا ہے۔مصطفیٰ عامر کا ڈرگ سے کچھ لینا دینا نہیں اس کیس میں اسے پھنسایا گیا تھا۔گفتگو کے دوران مقتول کی والدہ کا کہنا تھا کہ جب تک ڈی این اے کی رپورٹ نہیں آئی تھی تو میں دعا کر رہی تھی کہ مصطفی نہ ہو لیکن اب پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ اسی کی لاش ہے تو میری پاس یقین کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔

چشم دید گواہ ہونا اور مصطفی کو فون ملنا پھر اس کا خود اعتراف جرم کرنا۔لڑکی کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لڑکی کی مصطفی سے لڑائی ہوگئی تھی وہ ارمغان سے رابطے میں تھی اور اس کو پتہ بھی تھا کہ ارمغان نے مصطفی کے ساتھ کچھ کردیا ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ لڑکی سے پوچھیں سوال جواب کریں لیکن وہ لڑکی چلی گئی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ارمغان اور مصطفیٰ کے درمیان رقابت تھی جس میں کار ریسنگ اور دوستوں کے حلقے جیسے عوامل شامل تھے۔

مصطفی کی مقبولیت اور رویہ ارمغان کو ناگوار گزرتا تھا اور یہی دشمنی وقت کے ساتھ شدت اختیار کر گئی۔ ارمغان پر شک لڑکوں اور لڑکیوں کی دی گئی معلومات کی بنیاد پر کیا گیا اور ارمغان کے روئیے اور رویوں کی بنا پر ان کا نام لیا گیا تھا۔مقتول کی والدہ وجیہہ عامر کایہ بھی کہنا تھا کہ 25 جنوری کو علی الصبح 4 بجے امریکا سے تاوان کی کالز آنا شروع ہوئیں جس میں 2 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس وقت انہیں معلوم نہیں تھا کہ مصطفی کو قتل کر دیا گیا تھا اور وہ اسے زندہ تلاش کر رہے تھے۔ تاوان کی کالز کیس کو بھٹکانے کی کوشش تھیں۔ 27 جنوری کو دوبارہ تاوان کی کال آئی تھی جس کے بعد پولیس نے تحقیقات تیز کیں، اور چند دنوں کے اندر ارمغان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔