اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مارچ 2025ء) کابل پر طالبان کے قبضے سے قبل فاطمہ جیسی خواتین آزادی سے بال فروخت کر سکتی تھیں تاکہ ان سے وِگ (مصنوعی بالوں کی ٹوپیاں) بنائی جا سکیں اور یوں انہیں ضروری آمدن حاصل ہو جاتی تھی۔
پچھلے سال تاہم خواتین پر بال فروخت کرنے پر لگنے والی پابندی کے بعد 28 سالہ فاطمہ اور دیگر خواتین اب بال فقط خفیہ طور پر فروخت کر سکتی ہیں، جو یا تو باتھ روم کے نالیوں سے اکٹھے کیے جاتے ہیں یا سیلون کے فرش سے اور یوں وہ بال بال خطرہ مول لینے پر مجبور ہوتی ہیں۔
فاطمہ کہتی ہیں، ''مجھے اس پیسے کی ضرورت ہے۔فاطمہ سن 2021 میں کابل پر طالبان کے دوبارہ قابض ہونے کے بعد چند ان خواتین میں شامل ہیں، جو اب بھی نجی ملازمت کر رہی ہیں۔
(جاری ہے)
وہ کہتی ہیں، ''میں ان پیسوں سے اپنے لیے کچھ لے سکتی ہوں یا گھر کے لیے چیزیں خرید سکتی ہوں۔‘‘
سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنا آخری نام ظاہر نہ کرنے والی فاطمہ ہر 100 گرام بال صرف تین ڈالر کے لگ بھگ رقم میں فروخت کرتی ہیں۔
یوں ان کی سو ڈالر کے برابر کی ماہانہ اجرت میں کچھ اضافہ ہو جاتا ہے۔فاطمہ بتاتی ہیں کہ ان بالوں کو وِگ بنانے کے لیے بیرونِ ملک بھیجنے والے خریدار، ان کے گھر سے جمع کرتے ہیں۔
ان میں سے ایک خریدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ یہ بال جمع کر کے انہیں پاکستان اور چین بھیجتا ہے۔
طالبان حکام نے خواتین کے حقوق پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جسے اقوامِ متحدہ''صنفی امتیاز پر مبنی نظام‘‘ قرار دیتا ہے۔
انہوں نے خواتین اور لڑکیوں پر جامعات اور اسکولوں کے دروازے بند کر دیے ہیں اور یوں ان کے روزگار کے امکانات بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔خواتین کو پارکوں اور جم جانے سے بھی روک دیا گیا ہے اور بیوٹی سیلونز بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
پچھلے سال طالبان حکام نے مردوں اور عورتوں کی روزمرہ زندگی کے لیے نئے اخلاقی ضابطے''امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کے نام سے نافذ کیے تھے، جن میں انسانی جسم کے کسی بھی حصے سے جی تمام تر تجارت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اس پابندی میں بالوں کی خرید و فروخت بھی شامل تھی۔
تاہم طالبان نے یہ واضح نہیں کیا تھاکہ اس خلاف ورزی پر سزا کیا ہو گی۔طالبان کی وزارت امربالعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان سیف السلام خیبر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، '' ہمیں خدا کی طرف سے عطا کردہ انسانی شکل کا احترام کرنا چاہیے اور انسانی وقار کو برقرار رکھنا چاہیے‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بالوں کی خرید و فروخت ''معمول‘‘ بن چکی تھی اور اب طالبان نے ''جسم کے اعضا کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
‘‘اس معاملے کو طالبان اتنا حساس سمجھتے ہیں کہ اس وزارت نے رواں برس جنوری میں کابل میں تقریبا ایک ٹن انسانی بال جا دیے تھے۔ مگر یہ پابندیاں فاطمہ کو روک نہیں سکیں۔
نماز کے اوقات میں جب طالبان اہلکار اور فورسز مسجد میں ہوتے ہیں، فاطمہ کابل کے ایک کچرے کے مقام پر جا کر بالوں کا ذخیرہ خریداروں کو دے دیتی ہیں۔
یہ اضافی آمدن اس کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ترقی (UNDP) کے مطابق، افغانستان میں 85 فیصد لوگ روزانہ ایک ڈالر سے بھی کم اجرت میں گزارہ کرتے ہیں۔
ادارت: عاطف بلوچ