تتسی نسل کشی برسی: گوتیرش کا دنیا میں تقسیم اور نفرت پر قابو پانے پر زور

یو این منگل 8 اپریل 2025 01:15

تتسی نسل کشی برسی: گوتیرش کا دنیا میں تقسیم اور نفرت پر قابو پانے پر ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ 'ہم بمقابلہ وہ' کی سوچ دنیا میں نفرت، تقسیم اور جھوٹ کو ہوا دے رہی ہے جن پر قابو پانے کے لیے عالمی برادری کو متحرک کردار ادا کرنا اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر جھوٹے بیانیوں کو پھیلانے اور اظہار نفرت کا ذریعہ بن گئی ہے۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے گزشتہ سال طے پانے والے عالمی ڈیجیٹل معاہدے پر عملدرآمد کرنا ضروری ہے۔

Tweet URL

سیکرٹری جنرل نے یہ بات روانڈا میں تتسی النسل لوگوں کے قتل عام کی 31ویں برسی کے موقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ 1994 میں ہونے والی اس نسل کشی کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سبھی کے لیے انصاف اور وقار پر مبنی دنیا تعمیر کرنا ہو گی۔

تقریب میں اس قتل عام کے متاثرین، سفارت کاروں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی اور ایسے واقعات کو روکنے کا عہد کیا۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ روانڈا میں 100 روز تک جاری رہنے والے اس قتل عام میں 10 لاکھ بچوں، خواتین اور مردوں کو قتل کیا گیا جن کی بڑی تعداد تتسی نسل سے تعلق رکھتی تھی جبکہ نسل کشی کی مخالفت کرنے والے ہوتو النسل لوگ اور دیگر بھی اس بھیانک قتل عام میں موت کے گھاٹ اتر گئے۔

اجتماعی بے عملی اور ناکامی

سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ یہ مجنونانہ تشدد کے بے ساختہ واقعات نہیں تھے بلکہ ان کا ارتکاب سوچے سمجھے کیا گیا۔ نفرت، جھوٹ اور انسانی توہین کا پرچار کر کے اس کی باقاعدہ مںصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ نسل کشی اس نفرت کو روکنے میں اجتماعی ناکامی کا نتیجہ تھی۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فائلیمن یانگ نے کہا کہ بروقت انتباہ اور آنے والی تباہی کی واضح علامات کے باوجود دنیا نے اسے روکنے کے لیے کوئی فعال کردار ادا نہ کیا۔

حکومتیں اس مسئلے پر بحث کرتی رہ گئیں اور روانڈا سے مدد کے لیے اٹھنے والی پکار صدا بالصحرا ثابت ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج دنیا کو اپنی ناکامی پر غور کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ آیا ہم نے واقعتاً ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ کیا ہم نے ایسے مظالم کا دوبارہ ارتکاب روکنے کے لیے خاطرخواہ اقدامات کیے ہیں یا اس وقت بھی دنیا میں کسی جگہ یہی مظالم دہرائے جا رہے ہیں؟

متاثرین کی گواہی

روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کے متاثرین نے بھی تقریب سے خطاب کیا جن میں طبی محقق اور لکھاری جرمین توئیسینگے ملر بھی شامل تھیں۔

جب یہ واقعات پیش آئے تو ان کی عمر نو برس تھی اور اس وقت وہ روانڈا کے دارالحکومت کیگالی میں اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ مقیم تھیں جبکہ ان کے تین بہن بھائی اس وقت رشتہ داروں کے ہاں گئے ہوئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کے ملک کو نقابل تصور ہولناک حالات کا سامنا تھا۔ تشدد اور قتل عام کے نتیجے میں خاندان بکھر گئے، چھوٹے بچوں کو بھی ہلاک کر دیا گیا، خواتین کو ان کے عزیزوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور پورے کے پورے علاقوں سے لوگوں کا صفایا کر دیا گیا کیونکہ وہ تتسی تھے۔

اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ دو ماہ تک ایک ویران مکان میں اکیلی رہیں۔ ان کے پاس کچھ خشک دودھ تھا جس میں وہ چینی اور بارش کا پانی ملا کر پیتی تھیں۔ سات ماہ کے بعد انہوں نے اپنی والدہ کو دوبارہ دیکھا جو اس قتل عام کے ابتدائی دنوں میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں نسل کشی کے واقعات کا انکار کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن اُس قتل عام کے متاثرین اور ان کا ملک اس تلخ ماضی کے اعتراف اور اسے کبھی نہ دہرانے کے عزم کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

UNICEF/UNI55086/Press

رکن ممالک کی ذمہ داری

اس موقع پر سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ روانڈا نے اس نسل کشی کے بعد مفاہمت، اندمال اور انصاف کی جانب غیرمعمولی سفر کیا ہے۔

تاہم، تاریخ کا یہ ہولناک دور اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کوئی بھی معاشرہ نفرت اور ہولناکی سے پاک نہیں ہے۔

انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ ایسے جرائم کی وجوہات پر غور کرتے ہوئے دنیا کے موجودہ حالات پر بھی نظر ڈالنی چاہیے جہاں سازشی نظریات، جھوٹے بیانیے اور غلط و گمراہ کن اطلاعات پریشان کن رفتار سے پھیل رہی ہیں۔ دنیا کو نفرت اور تقسیم پر قابو پانا اور بے اطمینانی کو تشدد میں بدلنے سے روکنا ہو گا۔

انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں کا ارتکاب روکیں اور ایسے واقعات کے ذمہ داروں کا محاسبہ یقینی بنائیں۔ اس کے ساتھ، سبھی کو نسل کشی کی روک تھام کے کنونشن کی توثیق کرنا ہو گی اور اپنے لوگوں کو قتل عام، جنگی جرائم، نسلی صفائی اور انسانیت کے خلاف جرائم سے تحفظ دینے کی ذمہ داری کا پاس کرنا ہو گا۔