فوجی عدالتوں میں کلاشنکوف رکھ کر تو فیصلہ کیا جاتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ

اُن کو کوئی کچھ کہہ سکتا ہے؟ آپ کیسے انصاف اور شفاف ٹرائل کی بات کر رہے ہیں؟ حکومت سویلینز کو اپیل کا حق دے گی تو کون سا مسئلہ پیدا ہوگا؟؛ ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس میں ریمارکس

Sajid Ali ساجد علی بدھ 9 اپریل 2025 15:51

فوجی عدالتوں میں کلاشنکوف رکھ کر تو فیصلہ کیا جاتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 اپریل 2025ء ) سپریم کورٹ کی جج جسٹس مسرت ہلالی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کےخلاف کیس کی سماعت جاری ہے جہاں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس حسن اظہر، جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شاہد بلال بینچ کا حصہ ہیں، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس محمد علی بھی بینچ میں شامل ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ آج کی سماعت کے دوران اٹارنی جزل منصور اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ’ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پتا چلا عدالت نے مجھے طلب کیا تھا، جب کورٹ مارشل ٹرائل ہوتا ہے ہے تو اس کا پورا طریقہ کار ہے، ملٹری ٹرائل کیسے ہوتا ہے یہ پورا ریکارڈ عدالت کے پاس ہے، اگر کسی کو سزائے موت ہوتی ہے تب تک اس پر عمل نہیں ہوتا جب تک اپیل پر فیصلہ نا ہو جائے‘۔

(جاری ہے)

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ’آئین میں بنیادی حقوق دستیاب ہیں ہمارے سامنے اس وقت وہ مسلئہ ہے، ہم اپیل کی بات اس لیے کر رہے ہیں کہ کیوں کہ یہ بنیادی حق ہے‘، جس پر اٹارنی جزل نے کہا کہ ’خواجہ حارث دلائل مکمل کریں تو میں مزید بات کروں گا، کلبھوشن کیس میں ایک مسلئہ اور تھا، سیکشن تھری میں فئیر ٹرائل اور وکیل کا حق ہے، جب فل کورٹ میں یہ معاملہ آیا تھا تو وہ بھی 18ویں ترمیم کے بعد آیا تھا، جب فل کورٹ میں یہ معاملہ تھا تو عدالت نے ہی تین آپشنز دئیے تھے‘۔

اس جسٹس جمال خان مندوخیل نے قرار دیا کہ وہ تین آپشنز موجود ہیں اپیل کا حق ہے یا نہیں یہ بتائیں، اگر کسی کو فئیر ٹرائل کا حق دیتے ہیں اس میں مسلئہ کیا ہے‘، اسی دوران جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’اگر کوئی جج چھٹی پر چلا جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے کہ ٹرائل لیٹ ہو رہا ہے، آپ کیسے انصاف اور شفاف ٹرائل کی بات کر رہے ہیں، ملٹری کورٹس میں کلاشنکوف رکھ کر تو فیصلہ کیا جاتا ہے، ملٹری کورٹس میں ان کو کوئی کچھ کہہ سکتا ہے؟ حکومت سویلینز کو اپیل کا حق دے گی تو کون سا مسئلہ پیدا ہوگا؟‘۔

دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ ’اس وقت ہمارا فوکس اپیل پر نہیں تھا‘، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ’ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرنے والوں کو تو قانون شہادت کا علم ہی نہیں ہوگا، ملٹری کورٹس میں شواہد کو غلط بھی پڑھا جاسکتا ہے‘، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ’ملٹری کورٹس کے ٹرائل کا ریکارڈ تو ہم بھی نہیں دیکھ سکتے،حکومت اپیل کا حق دے رہی یا نہیں؟ شکایت کنندہ خود کیسے ٹرائل کر سکتا ہے؟ کیا تمام اداروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں؟ ہم پر تو لوگ فیصلوں کی وجہ سے صرف 50 فیصد اعتماد کرتے ہیں، اگر عدالتیں ہی ختم ہوگئیں تو پھر کیا ہوگا؟‘۔