خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں پانچویں بین الاقوامی پبلک ہیلتھ کانفرنس کا باضابطہ آغازہوگیا

بدھ 9 اپریل 2025 17:39

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اپریل2025ء) خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ اینڈ سوشل سائنسز (آئی پی ایچ ایس ایس) پشاور کے زیر اہتمام ’’تبدیل ہوتی دنیا میں پبلک ہیلتھ: جدت، چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان سے پانچویں بین الاقوامی پبلک ہیلتھ کانفرنس کا باضابطہ آغاز ہوگیا۔ کانفرنس کے مختلف سیشنز میں غیر متعدی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے مسئلے اور طرزِ زندگی کی طب کے ذریعے ان پر قابو پانے کے امکانات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔

وائس چانسلر کے ایم یو پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے افتتاحی سیشن سے خطاب میں طرزِ زندگی کی طب کو صحت عامہ کی پالیسی کا لازمی حصہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ہر سال 3 کروڑ 50 لاکھ افراد غیر متعدی بیماریوں کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو کہ کل اموات کا 60 فیصد ہیں جن میں سے 80 فیصد اموات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں اس وقت 1 کروڑ 79 لاکھ سے زائد افراد ان بیماریوں جیسے دل کے امراض، ذیابیطس اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، جن کی بنیادی وجہ طرزِ زندگی میں غیر صحت مند عادات ہیں۔ پروفیسر ضیاء الحق نے کہا کہ دنیا ایک سہ فریقی بوجھ کا شکار ہے جس میں متعدی، غیر متعدی اور ذہنی امراض شامل ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے صحت کے نظام میں NCDs سے نمٹنے کے لیے مخصوص سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

انہوں نے طرزِ زندگی کی طب کے چھ ستون بیان کیے جن میں متوازن غذا، جسمانی سرگرمی، تناؤ سے بچاؤ، بہتر نیند، مثبت سماجی تعلقات اور نقصان دہ عادات سے اجتناب شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صحت کے نظام میں ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے جہاں معالجین اس طرزِ علاج کو اپنی روزمرہ پریکٹس میں شامل کریں۔ پروفیسر ڈاکٹر زینب صمد نے COVID-19 کی بنیادی روک تھام پر گفتگو کی اور اس بات پر زور دیا کہ وباؤں سے بچاؤ کے لیے پہلے سے تیاری اور صحت عامہ کے نظام کی مضبوطی ناگزیر ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالجلیل خان نے برطانیہ سے حاصل کردہ تجربات کی روشنی میں عالمی سطح پر غیر متعدی بیماریوں سے نمٹنے کی حکمت عملیوں پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ڈاکٹر صائمہ آفاق نے پاکستان میں ذیابیطس، ڈپریشن اور ٹی بی جیسے امراض پر روشنی ڈالتے ہوئے مریض مرکز طریقہ علاج کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ہیلتھ ڈیلیوری سسٹم میں صرف جسمانی علاج نہیں بلکہ نفسیاتی اور سماجی پہلوؤں کو بھی شامل کرنا ہوگا تاکہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

ڈاکٹر منیرہ عباسی نے بھی طرزِ زندگی کی طب کو پبلک ہیلتھ کے تناظر میں اجاگر کرتے ہوئے اسے قومی صحت پروگرامز میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر صائمہ آفاق،ڈاکٹر بلال ،ڈاکٹر بابر عالم ، ڈاکٹر عابد اللہ ،ڈاکٹر جلیل خان اور ڈاکٹر سلسلہ شیرزاد کی موجودگی میں پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق کی زیر صدارت ایک پینل مباحثہ بھی ہوا جس میں ذہنی صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل، نوجوانوں میں NCDs کے خطرات اور رویوں میں تبدیلی کی ضرورت کے علاوہ غیر متعدی امراض سے بچائو میں مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل میڈیا کے کردار پر بھی تفصیل سے گفتگو کی گئی۔

کانفرنس کے موقع پر کے ایم یو کے طلباء اور مختلف اداروں کی جانب سے صحت سے متعلق آگاہی کے لیے متعدد اسٹالز بھی لگائے گئے تھے جن میں متوازن غذا، ورزش اور احتیاطی تدابیر سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔ ان سٹالز کو شرکاء کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی۔کانفرنس کی ایک اور خاص بات پبلک ہیلتھ سے متعلق موضوعات پر مختلف ماہرین کی زیر نگرانی پانچ پلینری سیشنز کاانعقاد تھا جن میں نوجوان محققین نے بڑی تعداد میں مختلف موضوعات پر اپنی پریذنٹیشنز پیش کیں۔