حیدرآباد اس وقت پانی کے شدید بحران کی لپیٹ میں ہے، جو شہری زندگی کو مفلوج کر رہا ہے، عدنان دیسوالی

شہر کے بیشتر علاقے، خاص طور پر وہ بستیاں جو پہلے ہی بنیادی سہولتوں سے محروم تھیں، اب پانی جیسی بنیادی ضرورت کے لیے بھی شدید اذیت کا شکار ہو چکی ہیں

اتوار 13 اپریل 2025 19:55

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 اپریل2025ء) تحریک انصاف میاں سرفراز ٹائون حیدرآباد کے صدر عدنان دیسوالی نے کہا ہے کہ حیدرآباد اس وقت پانی کے شدید بحران کی لپیٹ میں ہے، جو نہ صرف شہری زندگی کو مفلوج کر رہا ہے بلکہ انتظامی غفلت اور ناانصافی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے، شہر کے بیشتر علاقے، خاص طور پر وہ بستیاں جو پہلے ہی بنیادی سہولتوں سے محروم تھیں، اب پانی جیسی بنیادی ضرورت کے لیے بھی شدید اذیت کا شکار ہو چکی ہیں۔

یہ صورت حال کسی طور اچانک پیدا نہیں ہوئی یہ ایک ایسا بحران ہے جس کے خد و خال وقت کے ساتھ واضح ہوتے چلے گئے، مگر بدقسمتی سے ان نشانیوں کو سنجیدگی سے لینے کی زحمت کسی نے نہیں کی، ایک بیان میں عدنان دیسوالی نے کہا کہ اگر شہر کے اسٹیک ہولڈرز، اور بالخصوص پانی کی ترسیل کے دعویدار، اپنے اپنے ادوارِ اقتدار میں ایک مربوط اور دیرپا پالیسی ترتیب دیتے، تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

(جاری ہے)

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پالیسی کی کمی صرف عوام کو ہی نہیں، بلکہ واسا کے ان محنت کش ملازمین کو بھی متاثر کر رہی ہے، جو کئی کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں، حتی کہ تہواروں پر بھی اپنے بچوں کے چہروں پر خوشی لانے سے قاصر رہتے ہیں۔پانی کی فراہمی کا موجودہ نظام نہ صرف خستہ حال ہے بلکہ ایک خاص طبقے کے مفادات کا اسیر بھی دکھائی دیتا ہے۔

بعض بااثر افراد کی جانب سے اپنے مخصوص علاقوں میں بلا ضرورت یا ناجائز طور پر نئی لائنیں ڈلوانا، نہ صرف وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی ایک واضح مثال ہے بلکہ اس طرزِ عمل نے ان علاقوں کو بھی پانی کی قلت میں دھکیل دیا ہے، جو کبھی تسلسل سے پانی حاصل کرتے تھے۔ اس سنگین صورت حال کے نتیجے میں شہری روزانہ پانی کے حصول کے لیے کئی کئی گھنٹے قطاروں میں گزارنے پر مجبور ہیں، خواتین اور بزرگ افراد سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ، پانی کی کمی کے باعث صحت و صفائی کے حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں، اور مختلف علاقوں میں شہری پانی خریدنے پر مجبور ہو چکے ہیں، جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے غریب طبقے کے لیے ایک ناقابل برداشت اضافی بوجھ بن چکا ہے۔

یہ صرف ایک شہری مسئلہ نہیں، بلکہ ایک انسانی المیہ بن چکا ہے، جسے محض فائلوں میں چھپے خاکوں یا پریس کانفرنسز میں کیے گئے وعدوں سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک جامع اور شفاف واٹر مینجمنٹ پالیسی ترتیب دی جائے، پانی کی فراہمی میں سیاسی مداخلت کا مکمل خاتمہ کیا جائے، ترجیحات میں پسماندہ اور کمزور طبقے کو اولین ترجیح دی جائے، اور سب سے بڑھ کر، پانی کو سیاست نہیں بلکہ ایک قومی امانت سمجھ کر اس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ترقی کرتے پاکستان میں، جہاں بجلی کی بندش، گیس کی قلت اور دیگر مسائل برسوں سے عوام کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے، اب پانی جیسی بنیادی ترین سہولت بھی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ہم نے آج بھی اس صورت حال کا سنجیدگی سے ادراک نہ کیا، تو مستقبل صرف پیاس نہیں، بلکہ محرومی، بیماری، اور بے بسی کا استعارہ بن جائے گا۔ پانی صرف ایک سہولت نہیں، یہ زندگی کی سانس ہے۔ اگر ہم آج بھی اس حقیقت سے آنکھیں چراتے رہے، تو آنے والے کل میں ہمیں صرف پیاس ہی نہیں، بلکہ پچھتاوا بھی ورثے میں ملے گا۔