طالبان موت اور دوسری ظالمانہ سزائیں دینا بند کریں، انسانی حقوق ماہرین

یو این ہفتہ 19 اپریل 2025 02:30

طالبان موت اور دوسری ظالمانہ سزائیں دینا بند کریں، انسانی حقوق ماہرین

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 اپریل 2025ء) انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے افغانستان کے طالبان حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں سزائے موت اور تمام غیرانسانی اور ظالمانہ جسمانی سزاؤں کا خاتمہ کریں۔

افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار رچرڈ بینیٹ اور دیگر نے ملک میں گزشتہ ہفتے چار افراد کو سرعام سزائے موت دیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایسے اقدامات بین الاقوامی قانون کی پامالی اور انسانی وقار پر حملے کے مترادف ہیں۔

Tweet URL

11 اپریل کو افغانستان کی سپریم کورٹ کے حکم پر قتل کے چار ملزموں کو صوبہ بادغیس، فراح اور نیمروز میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔

(جاری ہے)

یہ فیصلہ قصاص یعنی بدلے کے مذہبی قانون کے تحت دیا گیا۔ اس طرح، اگست 2021 میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملک میں سرعام پھانسی دیے جانے کے واقعات کی کم از کم مصدقہ تعداد 10 تک پہنچ گئی ہے۔

سفاکیت، تشدد اور دہشت

ماہرین نے کہا ہے کہ سرعام سزائے موت دیے جانے کا مذہبی بنیاد پر بھی کوئی جواز نہیں۔ اس سے سفاکیت پھیلتی ہے، لوگ تشدد کی طرف مائل ہوتے ہیں اور خوف و دہشت کا ماحول جنم لیتا ہے۔

حالیہ واقعات اس طرح کی سزاؤں میں پریشان کن اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ طالبان کو چاہیے کہ وہ سزائے موت کو ختم کرنے کے اقدامات اٹھائیں اور ایسا ہونے تک اس پر عملدرآمد روک دیں۔

ماہرین نے طالبان حکمرانوں کی جانب سے ملزموں کوڑے مارے جانے سمیت جسمانی سزاؤں کے بڑھتے استعمال پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔ ایسی سزائیں عموماً مردانہ ہم جنس تعلقات، خواتین اور لڑکیوں کے گھروں سے بھاگنے اور مردوخواتین کے 'ناجائز تعلق' پر دی جاتی ہیں۔

رواں سال ایسے 213 واقعات میں 169 مردوں اور 44 خواتین کو یہ سزائیں دی جا چکی ہیں۔

ان کا کہنا ہے، یہ واضح نہیں کہ آیا طالبان کی عدالتوں سے سزائے موت پانے والوں کی دماعی یا ذہنی صلاحیت کو مدنظر رکھا گیا یا نہیں۔ جرم سے قطع نظر کسی بھی طرح کے حالات میں ایسے افراد کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی جن کی عمر مبینہ جرم کے وقت 18 سال سے کم ہو۔ اسی طرح، سنگین نفسیاتی یا ذہنی معذوری کے حامل لوگ بھی اس سزا کے مستحق نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

نظام انصاف کی کمزوری

ماہرین نے کہا ہے کہ افغانستان میں انصاف تک رسائی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے پہلے ہی سنگین خدشات پائے جاتے ہیں جبکہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر منظم طور سے قدغن عائد کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سزائے موت اور جسمانی سزائیں انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی ذمہ داریوں سے مطابقت نہیں رکھتیں اور بالخصوص منصفانہ قانونی کارروائی اور ملزموں کو اپنے دفاع کا مکمل حق دیے بغیر ان پر عملدرآمد ناانصافی کے مترادف ہے۔

طالبان کا نظام انصاف آزاد و خودمختار نہیں ہے اور اس میں ضابطے کے ایسے نقائص پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے منصفانہ فیصلوں کا کم از کم معیار بھی برقرار نہیں رہتا۔ ملک کا کوئی آئین بھی نہیں ہے جبکہ قابل اطلاق قوانین کے حوالے سے بھروسے اور وضاحت کا بھی فقدان ہے۔ ان حالات میں منصفانہ قانونی کارروائی کے حق اور خواتین، لڑکیوں اور لڑکوں کی انصاف تک رسائی کے حوالے سے سنگین خدشات ابھرتے ہیں۔

ماہرین نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ تمام قیدیوں کے حقوق اور وقار کا احترام کرتے ہوئے سزائے موت سمیت ایسی تمام جسمانی سزاؤں پر عملدرآمد روک دیں جو تشدد یا ظالمانہ و غیرانسانی سزاؤں کی ذیل میں آتی ہیں۔