سندھ ہائی کورٹ نے عدالتوں میں سہولتوں کے فقدان اور سیکیورٹی کے مسائل سے متعلق درخواست پر فریقین کو فوکل پرسنز نامزد کرنے کیلیے مہلت دے دی

منگل 22 اپریل 2025 17:51

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اپریل2025ء)سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ نے سٹی کورٹس، سندھ ہائیکورٹ اور دیگر عدالتوں میں سہولتوں کے فقدان اور سیکیورٹی کے مسائل سے متعلق درخواست پر فریقین کو فوکل پرسنز نامزد کرنے کیلیے مہلت دیتے ہوئے سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی ہے۔ منگل کو سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ میں سٹی کورٹس، سندھ ہائیکورٹ اور دیگر عدالتوں میں سہولتوں کے فقدان اور سیکیورٹی کے مسائل سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔

عدالت کے حکم کے باوجود آئی جی سندھ اور میئر کراچی نے فوکل پرسنز نامزد نہیں کئے۔ ہائیکورٹ بار اور کراچی بار کی جانب سے بھی فوکل پرسنز نامزد نہیں ہوئے۔ جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس دیئے کہ اب ہم آئی جی کو کیا کہیں جب وکلا کے اپنے ہی نمائندے نامزد نہیں ہوسکے۔

(جاری ہے)

درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ کراچی بار اور ہائیکورٹ کے منتخب نمائندے کینالز کے سلسلے میں دھرنے پر گئے ہوئے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایک چھوٹا سا معاملہ ہے فون پر بات کرلیں، آئندہ سماعت سے پہلے حل کرلیں۔ چیف سیکریٹری آفس کی جانب سے فوکل پرسن کی تعیناتی پر ہچکچاہٹ، نمائندہ چیف سیکریٹری نے کہا کہ ممکنہ طور پر ارشد بھٹو چیف سیکریٹری آفس کے فوکل پرسن ہوسکتے ہیں۔ جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس میں کہا کہ ہوسکتے ہیں سے ہم کیا مراد لیں ہیں یا نہیں ہیں۔

اگر چیف سیکریٹری فوکل پرسن نامزد نہیں کرنا چاہتے تو نا کریں، ہم نوٹ کرلیتے ہیں۔ میئر کراچی کی جانب سے وکیل پیش ہوئے۔ عدالت نے جلد فوکل پرسن نامزد کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس مالی سال میں مسائل کے حل کیلیے شارٹ ٹرم پلاننگ کرلیں۔ ہمیں وار فٹنگ پر کام کرنا ہوگا، سٹی کورٹ کمپلیکس میں سیکیورٹی سمیت بہت سے مسائل ہیں۔

جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں مسائل کے حل کے لیے ایک بیچ پر ہونا چاہئے۔ کابینہ اور اے ڈی پی میں بھی اس مسلے کو اٹھانا چاہیے۔ شارٹ اور لانگ ٹرم مسائل کے حل کے لیے کیا کچھ ہوسکتا ہے دیکھنا ہوگا۔ اس اقدام کے ثمرات ایک سال بعد نطر آئیں گے۔ اوریجنل سائیڈ کے کیسز ماتحت عدلیہ کو منتقل ہوچکے ہیں۔ امید اب کیسز کے فیصلے جلد ہونے چاہیں۔

عدالت نے فریقین کو فوکل پرسنز نامزد کرنے کیلیے مہلت دیتے ہوئے سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی۔ ضیا اعوان ایڈوکیٹ نے درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ سٹی کورٹ ایک مچھلی مارکیٹ لگتا ہے وہاں کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ اگر خدا نخواستہ بھگڈر مچ جائے تو نکلنے کا راستہ نہیں ہے۔ جہاں ٹوائلٹ تھے وہاں کورٹ یا جج بیٹھے ہوئے۔ سٹی کورٹ میں سائلین، عدالتی عملے، وکلا اور خواتین وکلا کے مسائل ہیں۔

معذوروں کے لیے کوئی الگ سے راستہ نہیں ہے۔ عدالتوں کی لفٹ ہیں بھی تو خراب ہیں۔ سٹی کورٹ میں درپیش 20 مسائل کی درخواست میں نشان دہی کی گئی ہے۔ سٹی کورٹ میں پینے کا صاف پانی نہیں ہے نا ہی کسی فلور پر کوئی ٹوائلٹ ہیں۔ سٹی کورٹ میں نا ہی کوئی پارکنگ کا انتظام ہے۔لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس نے ایک ہی جوڈیشل کمپلیکس بنانے کا اعلان کیا ہیں۔ جیل کی جگہ پر جوڈیشل کمپلیکس بنایا جائے اور جیل کو شہر سے باہر شفٹ کیا جائے۔ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے جو پیسے دئیے تھے وہ بلڈنگوں پر لگ گئے ہیں۔ 80 فیصد کیسز کی سماعت ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہوتی ہے۔