ی*سندھ کی جانب سے تاریخی مقام "کُچک نا قبر" پر قبضے کی کوشش بے بنیاد ہے، ڈی سی خضدار

بدھ 23 اپریل 2025 20:00

,خضدار(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 اپریل2025ء) کچک نا قبر" پر سندھ کے دعوے مسترد، ڈپٹی کمشنر کا تاریخی شواہد کے ساتھ موقف واضح ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر اقبال دشتی نے کہا ہے کہ ہم اپنی زمین کا دفاع کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ سندھ کی جانب سے تاریخی مقام "کُچک نا قبر" پر قبضے کی کوشش بے بنیاد ہے۔ تمام دستیاب ریکارڈ کے مطابق یہ تاریخی مقام بلوچستان کے ضلع خضدار کا حصہ ہے یہ مقام خضدار کی سب تحصیل کرخ اور یونین کونسل سن چکھو محلہ ڈھاڈھارو میں شامل ہے۔

بلوچستان کے محکمہ آثارِ قدیمہ کی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ 1907 میں انگریز دور کے بلوچستان گزٹ میں اس مقام کو "ک چک نا قبر" کے نام سے بلوچستان کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ 1924 کے گزٹ اور قیام پاکستان کے بعد 1961 کی مردم شماری میں بھی اس مقام کو "ک چک نا قبر" کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے ضلع خضدار کی تحصیل کرخ کا حصہ قرار دیا گیا"کچک نا قبر" براہوئی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب "کتے کی قبر" ہے۔

(جاری ہے)

مقامی اور تاریخی حوالوں سے یہ علاقہ ڈھاڈریاڑو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے 1970 تک یہ "ک چک نا قبر" کے نام سے مشہور تھا۔ بعد میں، چونکہ مقامی لوگ اکثر سندھی بولتے ہیں، اس لیے انہوں نے اسے سندھی زبان میں "کتے جی قبر" کہنا شروع کیا، مگر کسی جگہ کو سندھی زبان میں پکارنے سے وہ علاقہ کسی اور صوبے کا حصہ نہیں بن جاتا۔1964 میں سروے آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نقشوں میں بھی یہ علاقہ ضلع خضدار، صوبہ بلوچستان کا حصہ دکھایا گیا ہے ان خیالات کا اظہار ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر اقبال دشتی نے خضدار پریس کلب کے نوجوان صحافی عامر باجوئی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2017 میں پہلی بار سندھ کی جانب سے اس علاقے پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی، جس پر کمشنر قلات ڈویڑن اور ڈپٹی کمشنر خضدار نے نوٹیفیکیشنز جاری کرتے ہوئے علاقے کا بھرپور دفاع کیا تھا خضدار کے قبائلی عمائدین اس معاملے کو سپریم کورٹ تک لے گئے تھے، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے باضابطہ فیصلہ کرتے ہوئے اس علاقے کو ضلع خضدار کا حصہ قرار دیاحال ہی میں جب دوبارہ یہ مسئلہ اٹھا، تو خضدار انتظامیہ نے حکومت بلوچستان کو اس مقام کی اہمیت اور ریکارڈ کے حوالے سے آگاہ کیا۔

سیکریٹری سیاحت بلوچستان نے سندھ کے سیکریٹری سیاحت کو تاریخی دستاویزات کا حوالہ دے کر نوٹیفیکیشن کے ذریعے واضح کیا کہ یہ علاقہ بلوچستان کا حصہ ہے اور سندھ انتظامیہ سے کہا گیا کہ وہ اس علاقے پر قبضہ کرنے کے حوالے سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن واپس لے۔ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر اقبال دشتی نے کہا کہ 2018 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں مقامی لوگوں نے آئینی کیس جیتا، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے حلقہ بندی کے نقشے میں اس مقام کو خضدار کے حلقے میں شامل کیا۔

شروع سے ہی اس علاقے کے انتخابات بلوچستان میں ہوتے ہیں، یہاں کے یونین کونسلرز کا تعلق اور ڈومیسائل بھی ضلع خضدار سے ہے ریونیو ریکارڈ میں یہاں کے 471 زمیندار رجسٹرڈ ہیں یہاں پر لیویز فورس کی چیک پوسٹ بھی موجود ہے، جس کا مقصد اس تاریخی اور سیاحتی مقام "کچک نا قبر" کی حفاظت کرنا ہییہ مقام سندھ اور بلوچستان کے درمیان بارڈر لائن سے 25 کلومیٹر بلوچستان کی جانب واقع ہے سندھ کی طرف سے یہاں تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، کیونکہ درمیان میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے کی بڑی بڑی چوٹیاں ہیں اگر سندھ یہاں پر آنا بھی چاہے تو سینکڑوں کلومیٹر کرخ کی جانب سفر کرکے وہاں پہنچ سکتا ہے۔

اس تنازعے کے حل کے لیے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی نے سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کو 30 دن کے اندر مشترکہ کمیٹی تشکیل دے کر مسئلہ حل کرنے کی ہدایت دی ہے اگر 90 دن کے اندر مسئلہ حل نہ ہوا تو بین الصوبائی رابطہ کی وزارت مداخلت کرے گی اور ایک رپورٹ سینیٹ کمیٹی کو پیش کی جائے گی۔