شادی ذاتی پسند پر مبنی ہے اور بالغ ہو کر اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق رکھتی ہوں، ایمان الیاس

پسند کی شادی کرنے والی لڑکی اور اس کے خاندان کو جان کے خطرات، والدین کی جانب سے سنگین دھمکیاں

اتوار 4 مئی 2025 17:05

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 مئی2025ء)پسندکی شادی کرنے والی ایمان الیاس نے سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل سے درخواست کی ہے کہ وہ فوری طور پر ان کے اور ان کے شوہر کو حفاظتی اقدامات فراہم کریں۔ ایمان نے کہا کہ اگر ان کے یا ان کے شوہر کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کا ذمہ دار ان کے اہل خانہ کو ٹھہرایا جائے گا، جنہوں نے اپنی بیٹی کی پسند کی شادی کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے اپنے دشمن کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ہے۔

22 اپریل 2025 کو ایمان الیاس نے اپنی رضا مندی سے شاہد ولد حافظ زاہد حسین سے نکاح کیا، مگر اس شادی کے بعد ان کی زندگی ایک خوفناک اور بے یقینی کے دور سے گزر رہی ہے۔ ایمان نے اپنی درخواست میں واضح کیا ہے کہ اس کی شادی اس کی ذاتی پسند پر مبنی تھی اور وہ بالغ ہو کر اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

تاہم، ان کے اہل خانہ نے اس شادی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دونوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔

پاکستان میں پسند کی شادی ایک بہت حساس مسئلہ بن چکا ہے، جہاں مذہبی، ثقافتی، اور سماجی دباؤ کی وجہ سے ایسے جوڑوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے لیے یہ صورتحال اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے، کیونکہ انہیں نہ صرف اپنے والدین کے غصے کا سامنا ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ان کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ایمان الیاس کی درخواست اسی تناظر میں بہت اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ اس میں نہ صرف ایک فرد کے ذاتی حق کی حفاظت کی بات کی گئی ہے بلکہ اس میں خاندان کی طرف سے دھمکیاں دینے کے بعد حفاظتی اقدامات کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

اس درخواست کی اہمیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہم سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلوں کو دیکھتے ہیں جن میں عدالتوں نے پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں کو تحفظ فراہم کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ ایسے فیصلے یہ ثابت کرتے ہیں کہ عدالتیں ان افراد کے حق میں کھڑی ہیں جو اپنی مرضی سے زندگی کے اہم فیصلے کرنے کا حق رکھتے ہیں، اور انہیں ان کے حقوق کی پاسداری میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

ایمان الیاس کی درخواست میں نہ صرف سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو بلکہ چیف جسٹس سندھ، ایڈیشنل آئی جی کراچی، اور چیف سیکریٹری سندھ کو بھی کاپیاں ارسال کی گئی ہیں۔ ایمان کی جانب سے یہ درخواست اس بات کا غماز ہے کہ اس وقت ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں اور انہیں فوری طور پر حکام سے حفاظتی اقدامات کی توقع ہے۔ایمان کا کہنا ہے کہ اگر ان کی زندگی، ان کے شوہر یا ان کے سسرال والوں کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کا ذمہ دار صرف ان کے اہل خانہ کو ٹھہرایا جائے گا، جنہوں نے اس شادی کو تسلیم نہیں کیا اور ان پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

ان کی زندگی میں جانی نقصان کا اندیشہ اس وقت بڑھ جاتا ہے جب والدین اپنی بیٹی کے دشمن بن جائیں اور اسے دھمکیاں دیں۔اگر اس درخواست پر فوری اور مؤثر کارروائی نہ کی گئی تو اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اس صورت میں نہ صرف ایمان الیاس اور اس کے شوہر کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے، بلکہ دیگر جوڑے جو اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں، ان کے لیے بھی ایک پریشانی کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔

انفرادی حقوق کی پامالی اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی مشکلات کے بارے میں حکومت کو فوری طور پر سوچنا ہوگا، تاکہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ایمان الیاس اور اس کے شوہر کی جان کا تحفظ صرف ان کی ذاتی آزادی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسی مثال ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست اور عدالتوں کا کام اپنے شہریوں کو اس بات کی ضمانت دینا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنے کے حق سے محروم نہ ہوں۔

اگر فوری طور پر حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف ایمان الیاس بلکہ اس کے اہل خانہ کی جان کو بھی سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے تحفظ کی فراہمی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ایمان الیاس کی درخواست اس بات کا غماز ہے کہ ایسے جوڑوں کو نہ صرف قانونی تحفظ کی ضرورت ہے، بلکہ ان کے جان و مال کی حفاظت بھی ضروری ہے۔

اس صورتِ حال میں حکام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فوری طور پر اس کیس میں مداخلت کریں اور لڑکی اور اس کے شوہر کو ہر قسم کے خطرات سے بچانے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ اگر اس معاملے میں کوتاہی کی گئی تو نہ صرف ان کی جان کو خطرہ ہو گا بلکہ یہ ایک بڑی سماجی مسئلے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔یہ واقعہ اس بات کا غماز ہے کہ ہمیں اپنی معاشرتی روایات کے اندر انفرادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ایک ایسا نظام قائم کرنا ہوگا جس میں ہر شہری اپنی زندگی اور آزادی کا بھرپور طریقے سے تحفظ محسوس کرے۔