Live Updates

لاہور چیمبر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات میں بجٹ تجاویز پیش کر دیں

حکومت کاروبار کرنے کی لاگت کم کرنے ،تجارتی ماحول کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کرے

منگل 6 مئی 2025 16:59

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 مئی2025ء) لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر انجینئر خالد عثمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو میں وفاقی بجٹ 2025-26 کے لیے اہم تجاویز پیش کردیں۔ یہ اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے سرکاری و نجی شعبے کے نمائندوںسیکرٹریز، چیئرپرسنز اور ڈائریکٹرز نے شرکت کی۔

انجینئر خالد عثمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ آنے والا بجٹ پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور لاہور چیمبر نے یہ بجٹ تجاویز اپنے اراکین سے وسیع مشاورت کے بعد تیار کی ہیں۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ کاروبار کرنے کی لاگت کم کرنے اور تجارتی ماحول کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کرے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کاروبار سے متعلقہ طریقہ کار کو سادہ بنانے اور غیر ضروری ضوابط کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پالیسی سازی میں صنعتوں کی ترقی، تجارت کے فروغ اور معاشی استحکام کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے۔ انہوں نے آڈٹ اور ریفنڈ میکانزم میں اصلاحات کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ان اصلاحات سے ٹیکس دہندگان کو بہتر سہولت میسر آئے گی۔

انہوں نے تجویز دی کہ صنعتی ترقی کے لیے کسٹمز ڈیوٹی کا ایک متوازن نظام نافذ کیا جائے جس میں خام مال پر کم ڈیوٹی، نیم تیار مصنوعات پر درمیانی اور مکمل تیار مصنوعات پر زیادہ ڈیوٹی عائد کی جائے تاکہ مقامی سطح پر ویلیو ایڈیشن کو فروغ ملے اور درآمدات پر انحصار کم ہو۔ انجینئر خالد عثمان نے وزارت تجارت کی طرف سے مجوزہ 0 سے 20 فیصد یکساں ٹیرف ریجم کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مقامی صنعت کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔

انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس پر درآمدی ڈیوٹی ختم کی جائے کیونکہ صنعتی اداروں کے لیے بین الاقوامی ماحولیاتی معیارات پر پورا اترنے کے لیے ان پلانٹس کی تنصیب ضروری ہے، تاہم بھاری ڈیوٹی اس میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ چھوٹ نہ صرف ماحولیاتی تحفظ میں مدد دے گی بلکہ پاکستان کی برآمدات کو بھی فروغ دے گی۔ٹیکس نظام پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایف بی آر کی ایس ایم ای کی تعریف کو اسمدا کی تعریف سے ہم آہنگ کیا جائے اور وہ کاروبار جن کا سالانہ ٹرن اوور 80 کروڑ روپے تک ہے، انہیں ایس ایم ای قرار دیا جائے۔

اس سے ٹیکس نظام میں مزید کاروبار شامل ہوں گے اور ایک سادہ ٹیکس نظام کے تحت 15 فیصد منافع یا 0.5 فیصد ٹرن اوور پر ٹیکس عائد کیا جا سکے گا، جبکہ تین سال تک آڈٹ سے استثنیٰ بھی دیا جا سکتا ہے۔انہوں نے سیلز ٹیکس میں بھی اسی طرح کے کاسکیڈنگ ماڈل کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ خام مال پر 0 فیصد، درمیانی مصنوعات پر 5 سے 8 فیصد اور مکمل مصنوعات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس ہونا چاہیے۔

انہوں نے ایف بی آر کی طرف سے برآمد کنندگان کو فائنل ٹیکس ریجم سے نکال کر منیمم ٹیکس ریجم میں شامل کرنے پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ یہ فیصلہ برآمد کنندگان کے لیے مشکلات اور مالی بوجھ کا باعث ہے، جنہیں اب نہ صرف باقاعدہ حسابات بنانے ہوں گے بلکہ ایک فیصد کے علاوہ اضافی ٹیکس بھی ادا کرنا پڑے گا۔انجینئر خالد عثمان نے تجویز دی کہ تاجروں کو مؤثر طور پر ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ایک سادہ فکسڈ ٹیکس نظام متعارف کرایا جائے، جس کا آغاز ایک مقررہ فکسڈ ٹیکس سے کیا جائے، خواہ کاروبار کا حجم کچھ بھی ہو، اور بعد ازاں اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد تفصیلی سلیبس بنائے جائیں۔

انہوں نے ٹرن اوور کی بنیاد پر لگائے جانے والے سپر ٹیکس پر بھی اعتراض کرتے ہوئے اسے غیر منصفانہ قرار دیا، خاص طور پر اٴْن کمپنیوں کے لیے جو نقصان میں جا رہی ہوں۔
Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات