کوئی جج مستقل جج کا حلف اٹھاتا ہی نہیں ہے،سپریم کورٹ ٹرانسفر کی نئی تعیناتی قرار نہیں دیا جا سکتا، آپ کب تک خطوط پڑھیں گے کچھ آئینی سوالات بتا دیں،جسٹس علی مظاہر کے ریمارکس
جمعرات 15 مئی 2025
22:17
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 مئی2025ء)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس میں جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی جج مستقل جج کا حلف اٹھاتا ہی نہیں ہے،پہلے ایڈیشنل جج کا حلف ہوتا ہے پھر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے وہ مستقل ہوتا ہے،ٹرانسفر کی نئی تعیناتی قرار نہیں دیا جا سکتا، آپ کب تک خطوط پڑھیں گے کچھ آئینی سوالات بتا دیں، ان خطوط کا فائدہ نہیں یہ سب پڑھے ہوئے ہیں ، ہم ان خطوط کا کیا کریں گے یہ لارجربینچ میں زیرسماعت ہیں ، ہم اس معاملے پرنہ کوئی حکم دے سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیںجبکہ جسٹس شاہدبلال نے کہاکہ میرے علم میں ایک بات آئی ہے، لاہور ہائیکورٹ بار اور لاہور بار کے صدرور ایک سیاسی جماعت کے عہدے دار ہیں، دونوں صدور اس سیاسی جماعت کے عہدے دار ہیں جس جماعت کے آپ سینیٹر ہیں، بار کی سیاست میں قومی سیاست آچکی ہے۔
(جاری ہے)
منیر اے ملک نے کہا جج کے ٹرانسفر کو عدلیہ کی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے۔ انھوں نے یہ دلائل جمعرات کے روزدیے ہیں سپریم کورٹ آئینی بینچ میں ججز ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،درخواستگزار ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ججز کی سنیارٹی عدلیہ کی ا?زادی کے ساتھ منسلک ہے،جسٹس شاہد بلال نے کہاکہ ماضی میں لاہور ہائیکورٹ کے 3جج اسلام آباد ہائیکورت کے چیف جسٹس بنے،جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سنیارٹی کا تعین کون کرے گا وکیل منیر اے ملک نے کہاکہ سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس کریں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ چیف جسٹس کی جانب سے سنیارٹی تعین کا اختیار انتظامی ہے،چیف جسٹس کے انتظامی فیصلے کیخلاف متاثرہ فریق کہاں رجوع کرے گا وکیل منیر اے ملک نے کہاکہ متاثرہ فریق مجاز عدالت سے داد رسی کیلئے رجوع کرے گا، اسلام ا?باد اور دیگر ہائیکورٹس میں تقرری کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل مختلف ہوتی ہے،ہر ہائیکورٹ کے جج کا حلف الگ اور حلف لینے والا بھی الگ ہوتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی جج مستقتل جج کا حلف اٹھاتا ہی نہیں ہے،پہلے ایڈیشنل جج کا حلف ہوتا ہے پھر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے وہ مستقل ہوتا ہے،ٹرانسفر کی نئی تعیناتی قرار نہیں دیا جا سکتا،منیر اے ملک نے کہا جج کے ٹرانسفر کو عدلیہ کی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے۔درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہوئے توان کے بعدایڈوکیٹ حامد خان نے دلائل کا آغاز کیااور موقف اختیارکیاکہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی 133 سال پرانی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے 25 ہزار وکلائ ممبرز ہیں۔ججز کے تبادلہ پر وکلائ کا بڑا کنسرن ہے۔وکلائ کا موقف ہے کہ ہمارے جوڈیشل سسٹم کیساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔جسٹس محمدعلی مظہرنے کہاکہ حامد خان صاحب منیر اے ملک کافی دلائل دے چکے ہیں ،کوشش کریں کہ منیر اے ملک کے دلائل نہ دہرائے جائیں۔حامدخان نے کہاکہ ججز ٹرانسفر کا کیس بد نیتی کا ہے۔
یہ قانون اور حقائق دونوں ک8 بد بیتی کا کیس ہے۔ان خطوط کو سامنے رکھیں تو آسانی سے سمجھ آتا ہے کہ جج باہر سے کیوں آئے،خطوط لکھنے والے ججز سارے حقائق سامنے لے آئے ، چیزیں چھپانے سے مسائل بڑھتے ہیں تبھی ججز نے سب کچھ عوام کے سامنے رکھ دیا ، جسٹس شاہدبلال نے کہاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کو کتنا اختیار دیا گیا ، عامررحمان صاحب آپ نے بھی اس حوالے سے عدالت کو آگا کرنا ہے، حامدخان نے کہاکہ حلف صرف فارملٹیی نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے، ججز مایوس ہیں اس لیے انہوں نے خط لکھ کر جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ بتا دیا ، جسٹس محمدعلی مظہرنے کہاکہ حامد خان صاحب آپ کب تک خطوط پڑھیں گے کچھ آئینی سوالات بتا دیں، ان خطوط کا فائدہ نہیں یہ سب پڑھے ہوئے ہیں ، ہم ان خطوط کا کیا کریں گے یہ لارجربینچ میں زیرسماعت ہیں ، ہم اس معاملے پرنہ کوئی حکم دے سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں، حامدخان نے کہاکہ میں صرف حقائق سامنے رکھ رہا ہوں اور دلائل دینے کا میرا اپنا طریقہ کار ہے ، جسٹس محمدعلی مظہرنے کہاکہ اپنے دلائل کے طریقے کار میں کوئی آئینی سوالات بھی لے آئیں جو متعلقہ ہوں ، جسٹس شکیل احمدنے کہاکہ ان خطوط کو پڑھ کر کیا آپ بدنیتی ثابت کرنا چاہتے ہیں ، حامدخان نے کہاکہ میں کچھ حقائق عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آئینی بنچ نے حقائق کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرنا بلکہ قانونی سوالات پر فیصلہ کرنا ہے، حامدخان نے کہاکہ ججز خط کیس بدقسمتی کیساتھ آج تک زیر التوا ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کا کیس فکس نہیں ہوا، ہر کیس میں 26ویں آئینی ترمیم اڑاے آتی ہے، اسی لیے ہمارا موقف رہا پہلے 26ویں آئینی ترمیم کیس سنا جانا چاہیے تھا جسٹس شاہدبلال نے کہاکہ میرے علم میں ایک بات آئی ہے، لاہور ہائیکورٹ بار اور لاہور بار کے صدرور ایک سیاسی جماعت کے عہدے دار ہیں، دونوں صدور اس سیاسی جماعت کے عہدے دار ہیں جس جماعت کے آپ سینیٹر ہیں، بار کی سیاست میں قومی سیاست آچکی ہے، جسٹس شاہد بلال حسن کا حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ کام آپ کے مخالف گروپ نے شروع کیا، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے درخواست کیوں واپس لی،حامدخان نے کہاکہ یہاں ججز پیچھے ہٹ جاتے ہیں یہ تو پھر بیچارے بار کے صدر ہیں، جسٹس محمدعلی مظہرنے کہاکہ دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت لیں گے، حامدخان نے کہاکہ ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل کر لوں گا، جسٹس محمدعلی مظہرنے کہاکہ کل ایک جج دستیاب نہیں ہیں، کیس کی سماعت پیر کے روز ہوگی، بعدازاں عدالت نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت پیر 1 بجے تک ملتوی کردی۔
حامد خان پیر کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔