اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 مئی 2025ء) بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گرینڈ قبائلی جرگے نے مسلح تنظیموں کا قبائلی سطح پر مقابلے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ بلوچ قبائل صوبے میں علیحدگی کی کسی تحریک کا حصہ نہیں ہیں اور وہ صرف پاکستان کے قومی دھارے میں رہ کر اپنے حقوق کے لیے پر امن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ اس قومی جرگے میں وزیر اعظم شہباز شریف سمیت فوجی سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔
وزیر اعظم نے جرگے سے خطاب میں کیا کہا؟
گرینڈ جرگے سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قومی جرگے کا انعقاد بلوچستان کے عوام کے تحفظات دور کرنے کے لیے کیا گیا ہے اور پاکستان اپنی سلامتی پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
(جاری ہے)
انہوں نے اعلان کیا کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں بلوچستان کا حصہ مزید بڑھایا جا رہا ہے۔
"بلوچستان کی محرومیوں پر توجہ دیں گے اور حالات کو ہر صورت خراب ہونے سے بچائیں گے۔"شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کے امن کو تباہ کرنے کی کوششوں کو حکومت عوامی طاقت سے ناکام بنائے گی اور صوبے کے عوام کے تمام تحفظات دور کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کیا جائے گا۔
حکومت نے گرینڈ جرگے کا انعقاد ایک ایسے وقت کیا ہے جب صوبے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں ایک غیرمعمولی تیزی سامنے آئی ہے۔
گزشتہ روز شورش زدہ سوراب کے علاقے میں بھی عسکریت پسندوں نے ایک بڑا حملہ کیا تھا جس میں ایک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہدایت اللہ بلیدی ہلاک ہو گئے تھے۔ حملے کے دوران حملہ آوروں نے سرکاری املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا۔قومی جرگے میں فریقین کو کیوں مدعو نہیں کیا گیا؟
گرینڈ جرگے سے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی سمیت سیاسی اور قبائلی عمائدین نے بھی خطاب کیا اور بلوچستان کی سکیورٹی سمیت دیگر اہم امور پر روشنی ڈالی۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اس جرگے میں صوبے کی وہ حقیقی قیادت موجود نہیں تھی جو کہ موجودہ حالات میں شورش کے خاتمے کے لیے نتیجہ خیز کردار ادا کرسکتی ہے۔بلوچستان میں قومی دھارے کی سیاست پر یقین رکھنے والی بلوچ قوم پرست جماعت، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے قائم مقام صدر ساجد ترین کہتے ہیں کہ قبائلی جرگوں کے فیصلے سرکار نہیں عوامی قیادت ہی کرتی ہے لیکن یہاں صورتحال یکسر مختلف ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت جو حالات ہیں انہیں طاقت کے زور پر کبھی بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ "آج جو جرگہ منعقد کیا گیا ہے یہ وہ جرگہ نہیں تھا جو کہ بلوچستان کی حقیقی قیادت یہاں منعقد کرتی رہی ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "جرگے میں فریقین کو مدعو کیا جاتا لوگوں کے تحفظات دور کرنے پر بات کی جاتی لیکن انہیں تو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ "ساجد ترین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی سیاسی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے حکومت نے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ ان کے بقول، "جرگوں کی افادیت اس وقت سامنے آتی ہے جب فیصلے حقیقی عوامی قیادت کرتی، وہ عناصر نہیں جو ریاستی ایماء پر ایوانوں تک پہنچے ہوں۔"
بلوچ قوم پرست جماعتوں کے اصل تحفظات کیا ہیں؟
بلوچستان میں سیاسی امور کے سینیئر تجزیہ کار میر خدا بخش مری کہتے ہیں کہ ریاست کو بلوچستان سے متعلق اپنے فیصلوں میں زمینی حقائق کو نظرانداز کرنے کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "بلوچستان میں حکومت کی مفاہمت کی پالیسی دراصل روز اول سے ہی تضادات کا شکار رہی ہے۔ صوبائی حکومت صوبے میں بالکل ڈیلیور نہیں کر رہی، جو علاقے اس وقت شدید شورش کی لپیٹ میں ہیں وہاں حکومت کی کوئی رٹ دکھائی ہی نہیں دیتی۔"خدابخش مری کہتے ہیں کہ قومی جرگے کا انعقاد ایک خوش آئند عمل ہے لیکن اس جرگے کے فیصلوں کو تسلیم کون کرے گا۔
ان کے بقول، "بلوچستان کے حالات ملک کے تمام دیگر حصوں سے یکسر مختلف ہیں۔ ریاستی سطح پر ایسے عناصر کا سختی سے محاسبہ ہونا چاہیے جن کی پالیسیوں سے صوبے میں آج حالات اس قدر خراب ہیں کہ کوئی فرد خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا۔"کیا گرینڈ جرگہ دیرپا امن کی راہ ہموار کر سکے گا؟
سکیورٹی امور کے تجزیہ کار میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کہتے ہیں کہ بلوچستان کی مسلح تحریک اس وقت نوابوں اور سرداروں کے ہاتھوں سے یکسر نکل چکی ہے اس لیے وہ اس صورتحال کی بہتری میں کوئی خاطرہ خواہ بہتری نہیں لا سکتے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "ریاست کے خلاف جو عناصر ہتھیار اٹھا کر لڑ رہے ہیں وہ اب سرداروں اور نوابوں کے فیصلوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ لہٰذا حکومت کو ریاست اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریوں کو کم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔" عمر فاروق کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں مفاہمت کی حکومتی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ماضی میں مفاہمت کے لیے ہونے والی بعض کوششیں سود مند ثابت ہوئی تھیں لیکن اس پیش رفت پر مزید کام نہیں کیا گیا۔
ادارت: عرفان آفتاب