سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت 16 جون تک ملتوی

جمعرات 29 مئی 2025 20:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 مئی2025ء) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت 16 جون تک ملتوی کر دی۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بنچ نے جمعرات کو کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیئے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ کچھ فریقین نے اضافی گزارشات جمع کروائی ہیں جن کی نقول انہیں آج ملی ہیں اور وہ ان کو دیکھیں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا جج آئینی دائرہ کار سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں؟ جمہوریت کیلئے ہی سہی، مگر کیا جج آئین ری رائٹ کرسکتے ہیں؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیاکہ آئین “ری رائٹ “ نہیں کیا گیا۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ری رائٹ کیا گیا، تین دن کی مدت کو بڑھا کر پندرہ دن کیا گیا۔

(جاری ہے)

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ن لیگی وکیل سے سوال کیا کہ ایک جماعت کے امیدواروں کو آزاد کیسے قرار دیا گیا؟ اور کیا انہوں نے اپنی تحریری گزارشات میں اس کا جواب دیا ہے؟ مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت نے کہا کہ جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے یہ معاملہ نہیں کہ کون کیسے لڑا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ انہیں سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ صاحبزادہ حامد رضا کی 2013 سے سیاسی جماعت موجود ہے،جو جماعت الیکشن لڑے وہی پارلیمانی پارٹی بناتی ہے، وہ اپنی جماعت سے نہیں لڑے تو پارلیمانی جماعت کیوں بنائی؟فیصل صدیقی نے کہا کہ گیارہ ججز نے آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا تسلیم کیا۔

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 39 امیدواروں کی حد تک وہ اور قاضی فائز عیسیٰ بھی آٹھ ججز سے متفق تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اقلیتی ججز نے بھی انہی گرائونڈز پر پی ٹی آئی کو مانا جن پر اکثریتی ججز نے مانا تھا۔فیصل صدیقی نے کہا کہ جمہوریت میں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جمہوریت کی بات کی گئی ہے تو کیا امیدواروں کا اپنی مرضی سے فیصلہ کرنا جمہوریت نہیں؟ کسی کو زبردستی دوسری جماعت میں شمولیت پر مجبور تو نہیں کیا جا سکتا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ اس ساری صورتحال میں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد قرار دیا۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں کہ نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں یا کسی اور کو۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ جمہوریت میں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں، یہ پہلا موقع ہے کہ 13 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرثانی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس فیصلے پر نظرثانی آئی وہ ابھی تک عدالت کے سامنے پڑھا ہی نہیں گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کو کس نے روکا ہے فیصلہ پڑھنے سے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی کیس کے فیصلے کے بعد بھی ایک جماعت تھی اور اس معاملے پر پی ٹی آئی کو کوئی غلط فہمی نہیں تھی۔ اگر غلط فہمی ہوتی تو وہ پارٹی سرٹیفکیٹ جاری نہ کرتے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین سے بتا دیں کہ جماعت انتخابات لڑتی ہے یا امیدوار؟ کیسے کہہ رہے ہیں کہ پارٹی انتخابات میں حصہ لیتی ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پارٹی کے امیدوار انتخابات لڑتے ہیں اور مشترکہ نشان کا یہی مطلب ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت کے پاس انتخابات لڑنے کا حق بھی ہے۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ کوئی امیدوار اگر پارٹی کے نشان پر انتخابات لڑنا چاہتا ہے تو پارٹی سے امیدوار سرٹیفکیٹ لے گا۔بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 16 جون تک ملتوی کر دی۔