اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 جون 2025ء) جرمن چانسلر کا امریکہ کا دورہ ایک ایسے وقت پر عمل میں آرہا ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ اقتصادی اور تجارتی پالیسیوں اور یورپی ممالک پر غیر معمولی ٹیرفس عائد کرنے کے سبب یورپ اور امریکہ کے مابین غیر معمولی کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔ ساتھ ہی یوکرین اور روس کی جنگ کے تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی پالیسیاں بھی جرمنی سمیت یورپی یونین کی تمام ممبر ریاستوں کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
بین الاقیانوسی تعلقات اس وقت کئی عالمی تنازعات، بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور روس یوکرین جنگ سے براہ راست متاثر نظر آ رہے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں جرمن چانسلر کا امریکہ کا دورہ اہم بھی ہے اور مشکل بھی۔(جاری ہے)
میرس کے دورے کے دلچسپ پہلو
جرمن چانسلر فریڈرش میرس اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین پرائیویٹ سیل فون نمبرز کا تبادلہ ہو چُکا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو پہلے نام سے مخاطب کرنے لگے ہیں۔
یعنی دونوں کے تعلقات کے دوستانہ سطح پر ہونے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر جرمن چانسلر کو فریڈرش کہہ کر پکارتے ہیں اور جرمن چانسلر امریکی صدر کو ڈونلڈ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ان دونوں لیڈروں کی پہلی ملاقات برسوں پہلے ایک بار نیو یارک میں ہوئی تھی۔ فریڈرش میرس کے بطور جرمن چانسلر امریکہ کے اس پہلے دورے کی ایک نہایت خاص بات یہ ہے کہ میرس وائٹ ہاؤس کے برابر میں قائم '' بلیئرہاؤس‘‘ میں قیام کریں گے۔ اسے کسی بھی اسٹیٹ گیسٹ کے لیے ایک اعزاز کی بات سمجھا جاتا ہے۔ اس جگہ ماضی میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اور سابق فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال ٹھہر چُکے ہیں۔میرس حالیہ دنوں میں ٹرمپ سے ناراض کیوں تھے؟
چند ہفتوں قبل جرمن چانسلر میرس امریکی صدر ٹرمپ سے بے حد ناراض نظر آرہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ٹرمپ اور ان کے نائب جے ڈی وینس دونوں نے مل کر یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی پر عالمی برادری کے سامنے کھُلے عام تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''یوکرین کی جنگ کے ذمہ دار خود وہ بھی ہیں۔
‘‘جرمن چانسلر نے نائب امریکی صدر جے ڈی وینس اور ٹرمپ کے دیگر معتمد شخصیات کی طرف سے جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی اے ایف ڈی کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے پر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے جرمنی کے داخلی معاملات میں مداخلت اور سیاسی حملہ قرار دیا تھا۔
اپنے دورہ امریکہ کے تناظر میں جرمن چانسلر نے اپنے جذبات و احساسات کا ذکر کرتے ہوئے جرمن نشریاتی ادارے ''ویسٹ ڈوئچے رُنڈ فُنک‘‘ WDR کو حالی ہی میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ کے ساتھ اپنی پہلی ٹیلی فونک گفتگو کے پس منظر میں کہا تھا،'' ہمیشہ اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ ٹرمپ کے ساتھ زیادہ دیر تک بات نہ کی جائے۔
خود مختصر بولیں اور ان کو زیادہ بولنے دیں۔ ٹرمپ کے ساتھ بات چیت میں خود کو پوری طرح انگیج کر کے ان کے مزاج کے مطابق اپنا موقف بیان کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی برابری کی سطح پر رہتے ہوئے انہیں یہ احساس دلانا چاہیے کہ ہم بھکاری نہیں ہیں۔‘‘اچھے ہوم ورک کے ساتھ
جرمن چانسلر کی واشنگٹن میں ہونے والی بات چیت کا مرکز تین اہم موضوعات ہوں گے۔
یوکرین کی جنگ۔ ٹیرفس کا تنازعہ اوریورپ کی سلامتی کے سلسلے میں تعاون۔میرس کو یورپی سلامتی اور تعاون کے موضوع پر اپنے ٹھوس موقف کا اظہار کرنا ہوگا۔ ٹرمپ پہلے ہی جرمنی سمیت بعض یورپی نیٹو شراکت داروں کی طرف سے ناکافی دفاعی اخراجات کی بارہا شکایت کر چُکے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے نیٹو ممالک کے لیے امریکی تحفظ واپس لینے کی دھمکی دی ہے۔
اب میرس کہہ سکتے ہیں کہ جرمنی بڑے پیمانے پر دوبارہ ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے لیے مستقبل میں اس کی اقتصادی پیداوار کا پانچ فیصد مختص ہوگا، مزید 3.5 فیصد براہ راست فوج کے لیے اور 1.5 فیصد دفاع سے متعلقہ بنیادی ڈھانچے کے لیے صرف کیے جائیں گے۔
جرمنی یورپی قیادت سنبھالنے میں مزید کردار اجا کرنا چاہتا ہے۔ اس کا بہترین ثبوت جرمنی، فرانس، برطانیہ اور پولینڈ کے سربراہان مملکت و حکومت کا کییف کا مشترکہ دورہ تھا، جو فریڈرش میرس کے ایما پر عمل میں آیا۔
اس اقدام سے وہ امریکی مطالبہ بھی پورا ہوا جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ یورپ اپنی سکیورٹی پالیسی کے معاملات کی ذمہ داری خود سنبھالے۔ ایسا کرتے ہوئے فریڈرش میرس اور دیگر یورپی سربراہان حکومت روس کے صدر ولادیمیر پوٹن پر دباؤ بڑھانے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ٹرمپ ٹیرفس اور میرس کا مذاکراتی مینڈیٹ
جرمن چانسلر میرس کا ٹیرفس کے تناعے پر کوئی مذاکراتی مینڈیٹ نہیں ہے کیونکہ تجارتی پالیسی یورپی یونین کا معاملہ ہے۔
تاہم جرمنی ایک برآمدی ملک کے طور پر، خاص طور پر تجارتی پابندیوں سے سخت متاثر ہے۔ میرس جس روز امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے اسی دن اسٹیل اور ایلومینیم پر امریکی درآمدی محصولات دوگنا ہو کر 50 فیصد ہو گئیں۔اس امر کا امکان ہے کہ جرمن چانسلر ٹرمپ اور برسلز دونوں کے ساتھ لابنگ کریں گے تاکہ بڑھتے ہوئے تجارتی تنازعے سے بچا جا سکے کیونکہ اس جھگڑے میں تمام فریقین کو صرف اور صرف نقصان کا سامنا ہے۔
ادارت: شکور رحیم