تل ابیب (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 جون2025ء)فریڈم فلوٹیلا اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے پیر کی صبح غزہ کی جانب جانے والی امدادی کشتی "میڈلین" پر قبضہ کر لیا ہے اور اس میں سوار مسافروں کو حراست میں لے لیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس سے کچھ لمحے قبل اتحاد نے اعلان کیا تھا کہ یہ کشتی بین الاقوامی پانیوں میں "حملے کی زد میں ہی"، اور یہ بھی بتایا تھا کہ "کواڈ کاپٹر ڈرونز کشتی کا گھیرا کیے ہوئے ہیں اور اس پر ایک سفید اور اشتعال انگیز مادہ چھڑک رہے ہیں"۔
اتحاد نے مزید کہا کہ "میڈلین پر ریڈیو کے ذریعے اذیت ناک آوازیں نشر کی جا رہی ہیں" اور یہ کہ اسرائیلی فوج کی کشتی پر چڑھائی کے بعد سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہو چکا ہے۔اسی تناظر میں اسرائیلی اخبار نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے کشتی "میڈلین" پر کنٹرول حاصل کرنے کی کارروائی شروع کی، اور اس میں سوار 12 کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے تاکہ انھیں ملک سے بے دخل کیا جا سکے۔
(جاری ہے)
اخبار کے مطابق اسرائیلی بحریہ اس وقت کشتی کو اسدود بندرگاہ کی جانب کھینچ رہی ہے۔ادھر اسرائیلی نجی ٹی وی نے بھی اطلاع دی کہ بحری افواج نے کشتی پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ اب اسدود کی طرف رواں دواں ہے، جب کہ کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔اسرائیلی وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کی کہ فوج نے کشتی پر قبضہ کر لیا اور اسے اسرائیل کی طرف لے جایا جا رہا ہے مزید یہ کہ وہ کشتی میں سوار کارکنوں کو ان کے ممالک واپس بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اتوار کی رات دیر گئے نامعلوم کشتیوں نے "میڈلین" کے قریب سمندر میں پیش قدمی کی تھی، جس میں بین الاقوامی کارکن غزہ جا رہے تھے۔ یہ بات کشتی سے کی گئی براہِ راست نشریات میں بتائی اور دکھائی گئی۔برازیلی کارکن تھیاغو آویلا نے کشتی سے ٹیلی گرام پر صوتی پیغام میں کہا "سب کو سلام، میں ایک تازہ اطلاع دینا چاہتا ہوں، بدقسمتی سے، ابھی جو خطرے کا الارم بجا تھا وہ ایک جھوٹا الارم نکلا"۔
اس نے مزید کہا "ہمارے اردگرد بہت سی روشنیاں نمودار ہوئیں جن سے لگا کہ وہ ہمیں گھیر رہی ہیں، مگر وہ آگے بڑھ گئیں۔ ممکن ہے یہ اسرائیلی فوج کی کشتیاں ہوں، لیکن ہمیں یقین نہیں، بہرحال وہ ابھی کچھ دیر پہلے یہاں سے نکل گئی ہیں"۔اس سے قبل کشتی میں سوار مسافروں نے براہِ راست نشریات میں اطلاع دی تھی کہ اسرائیلی جنگی کشتیوں کے قریب آنے کی اطلاع پر کشتی میں خطرے کے سائرن بجنے لگے۔
مسافروں کے مطابق اسرائیل کی پانچ کشتیاں "میڈلین" کے قریب آ گئی تھیں۔فریڈم فلوٹیلا اتحاد نے کہا کہ اس کی کشتی "میڈلین" پر خطرے کی گھنٹی بجی ہے جو غزہ کی جانب رواں دواں ہے، اور کارکنوں نے راستے میں رکاوٹ کے خدشے کے پیش نظر لائف جیکٹس پہن لی تھیں۔اتوار کے روز ایک اسرائیلی سیکیورٹی اہل کار نے بتایا تھا کہ فوج اس کشتی پر قبضہ کرنے اور اس میں سوار افراد کو غزہ پہنچنے سے قبل ہی حراست میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اس اہل کار نے، جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، کہا تھا کہ فوج کشتی پر "غیر متشدد" طریقے سے قبضہ کرے گی، جس کے بعد مسافروں کو حراست میں لے کر ملک سے نکال دیا جائے گا۔کشتی "میڈلین" غزہ کے علاقائی پانیوں میں داخلے کے قریب پہنچ چکی ہے، اور اس وقت بھی وہ غزہ کے ساحل سے چند درجن سمندری میل دور موجود ہے، جیسا کہ "بین الاقوامی کمیٹی برائے محاصرہ شکنی غزہ" کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق اسرائیلی بحری کمانڈوز یونٹ "شایطیت 13" نے ایسی مشقیں کی تھیں جن میں کشتی پر "تشدد کے بغیر" کنٹرول حاصل کرنے کی تیاری کی گئی تھی، تاکہ غزہ پہنچنے سے قبل اسے روکا جا سکے۔ادارے نے مزید کہا کہ فوج کو توقع ہے کہ کشتی کو روکنے کی یہ کارروائی براہِ راست نشر کی جا سکتی ہے، اس لیے فوج اس کارروائی کو پر امن انداز میں انجام دینا چاہتی ہے۔
اس سے قبل اتوار کو "بین الاقوامی کمیٹی برائے محاصرہ شکنی غزہ" نے ایکس پلیٹ فارم پر اعلان کیا تھا کہ کشتی "میڈلین"، جو اٹلی سے روانہ ہوئی تھی، مصر کے ساحلوں کے قریب کے علاقوں کو عبور کر چکی ہے اور غزہ کی طرف مسلسل بڑھ رہی ہے۔کمیٹی نے تصدیق کی کہ کشتی کو اس وقت "اسرائیلی در اندازی" کا سامنا ہے جسے اس نے "خطرناک" قرار دیا، اور خبردار کیا کہ بین الاقوامی پانیوں میں کشتی پر کوئی بھی "حملہ" "جنگی جرم" کے مترادف ہو گا۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے کہا کہ انھوں نے فوج کو ہدایت دی ہے کہ کشتی کو غزہ پہنچنے سے روکا جائے، اس وقت کشتی "میڈلین " میں 12 افراد سوار ہیں، جن میں سویڈن کی کارکن گریٹا تھونبرگ اور آئرش اداکار لیام کیننگھم بھی شامل ہیں۔قبل ازیں "بین الاقوامی کمیٹی برائے محاصرہ شکنی غزہ" سے وابستہ ایک اور کشتی "الضمیر" کو بھی مئی کی دو تاریخ کو اسرائیلی ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا، جب وہ غزہ کی جانب روانہ ہو رہی تھی، جس سے اس کے ڈھانچے میں سوراخ ہو گیا تھا اور اس کے اگلے حصے میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔