Live Updates

لندن کے پاکستانی نژاد مئیر صادق خان ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بن گئے

برطانوی حکومت کی طرف سے انہیں لندن کا مسلسل تین مرتبہ مئیر منتخب ہونے اور بہترین کارکردگی پر سر کا خطاب دیا گیا

جمعرات 12 جون 2025 21:30

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جون2025ء) لندن کے پاکستانی نژاد مئیر صادق خان ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں برطانوی حکومت کی طرف سے انہیں لندن کا مسلسل تین مرتبہ مئیر منتخب ہونے اور بہترین کارکردگی پر سر کا خطاب دیا گیا ہے ۔صادق خان کے لئے سر کے خطاب کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم جس پہلو پر بات کرنا ضروری سمجھتے ہیں وہ برطانوی جمہوریت میں ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کے بیٹے صادق خان کا ایک کھرب پتی برطانوی زیگ گولڈ اسمتھ کے مقابلے میں لندن کا مئیر منتخب ہونا ہے کیونکہ پاکستان میں کسی ٹیکسی ڈرائیور کے بیٹے کے لئے کسی شہر کا مئیر منتخب ہونا تو دور کی بات کونسلر ہونا بھی انتہائی مشکل کام ہے ۔

یہاں آج بھی برطانیہ کے چھوڑے ہوئے وفاداروں کے وارث اور طاقتور افراد ہی اہم پوسٹوں پر منتخب ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

برطانیہ برصغیر پر ایک صدی سے زائد عرصہ حکمران رہا ہے لیکن اس نے یہاں کبھی حقیقی جمہوری کلچر پروان چڑھانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ استعمار کو برصغیر کے سماج کی تعمیر و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے صرف برصغیر میں اپنی حکمرانی اور وسائل سے دلچسپی تھی۔

ہمارے بعض کم فہم لوگ برصغیر میں قائم برطانوی انفراسٹرکچر کو اس کا احسان قرار دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ انفراسٹرکچر برطانوی استعمار کی اپنی ضرورت اور مجبوری تھی۔ بغور جائزہ لیا جائے تو برصغیر کے سماج اور برطانوی سماج کے نظم و ضبط، تعلیم و تربیت اور سہولیات میں کوئی ادنیٰ توازن بھی نہیں موجود نہیں تھا حالانکہ دونوں خطوں میں برطانیہ کی حاکمیت قائم تھی ۔

صحیح بات یہ ہے کہ برطانیہ ایک قابض لٹیرا تھا اس نے صرف اپنی حکمرانی کی رٹ قائم رکھنے کے لئے مطلوبہ ڈسپلن قائم رکھا اور مقامی وسائل کی لوٹ مار کے ذریعے اپنے اصل باشندوں کا طرز زندگی بہتر بنانے پر توجہ جاری رکھی۔ برطانوی استعمار کے مقابل مسلمانوں کی اموی، عباسی، فاطمی، عثمانی اور مغل سلطنت کے ادوار میں انکے زیر انتظام تمام خطوں میں معیار زندگی کم و بیش ایک جیسا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں آج جتنے بھی سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل موجود ہیں یہ برطانوی استعمار کے ہی پیدا کردہ ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ برطانوی استعمار کی طرح ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی سماج کی تعمیر و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے انہیں بھی اپنے اپنے سیاسی و مذہبی مفادات سے دلچسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے چھہتر سال بعد بھی ہمارا سماج ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کرنے کا اصل کام، تبدیلی اور انقلاب یہ ہے کہ ہم اپنے سماج کو تنزلی سے نکال کر ترقی کی طرف گامزن کردیں۔ اس میں موجود نقائص اور منفی عوامل کی تطہیر کر کے اسے مثبت، مربوط اور منظم سماج کی شکل میں ڈھال دیں ۔ سماجی ترقی کی کامیابی کی ایک علامت یہ ہوگی کہ یہاں بھی ایک عام شہری کسی شہر کا مئیر اور رکن پارلیمنٹ منتخب ہو جائے، پبلک کاؤنٹر پر کسی پولیس مین کی غیر موجودگی میں بھی خود بخود لائن لگ جائے اور لوگ اپنی باری کا تحمل سے انتظار کریں ۔

ہم تواتر سے اس امر کا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ ہماری نئی نسل اگر کچھ کرنا چاہتی ہے تو اسے جذباتی نعروں، تقریروں اور شخصیات کا اسیر ہونے اور اندھی مخالفت اور موافقت کا شکار ہونے کی بجائے درست سمت کا ادراک اور حقیقت کی اپروچ حاصل کرنا چاہیے اور اپنے سماج کو دنیا کا بہترین اور ماڈل سماج تشکیل دینے کا راستہ اختیار کرنا چاہئے ورنہ پاکستان میں حقوق اور محرومیوں کا رونا دھونا یونہی جاری رہے گا اور ہم لندن میں پاکستانی مئیر کی کامیابی کے تذکروں پر گزارہ کرتے رہیں گے ۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات