Live Updates

اسرائیل اور ایران کے مابین تنازعے میں امریکہ کہاں کھڑا ہے؟

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 14 جون 2025 20:00

اسرائیل اور ایران کے مابین تنازعے میں امریکہ کہاں کھڑا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جون 2025ء) اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کے بعد امریکی حکومت نے اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اس کارروائی میں شریک نہیں تھا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وائٹ ہاؤس کے توسط سے جاری ایک بیان میں کہا، ''اسرائیل نے ایران کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی۔ ہم ان حملوں میں شامل نہیں ہیں اور خطے میں تعینات امریکی افواج کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔

اسرائیل نے ہمیں صرف یہ اطلاع دی کہ اسے اپنی سلامتی کے لیے یہ اقدام ضروری لگا… میں واضح کر دوں: ایران کو امریکی مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔‘‘

یہ بیان جمعے کی صبح اسرائیلی حملوں کے آغاز کے تقریباً ایک گھنٹے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر وائٹ ہاؤس کی ٹیم نے جاری کیا۔

(جاری ہے)

اسی روز شام کو ایران نے جوابی حملے کیے۔

اس سے ایک روز قبل یعنی جمعرات کو امریکی محکمہ خارجہ نے ایک انتباہ جاری کیا تھا، جس میں مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ سلامتی کی صورتحال کے بارے میں امریکی شہریوں کو احتیاط برتنے اور تازہ ترین اطلاعات پر نظر رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

کیا امریکہ واقعی غیر فعال رہا؟

اگرچہ امریکہ اصرار کر رہا ہے کہ وہ حملے میں شامل نہیں لیکن کچھ ماہرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا امریکہ نے کسی سطح پر پس پردہ مدد فراہم کی؟

جرمنی کے انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی و سلامتی امور (ایس ڈبلیو پی) سے وابستہ ساشا لوہمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''جو معلومات اب تک حملے کی لاجسٹکس کے حوالے سے دستیاب ہیں، جیسے ایران میں چھپائے گئے ڈرونز، ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل نے تنہا کی۔

تاہم ہم مکمل طور پر اس امکان کو رد نہیں کر سکتے کہ امریکہ نے کسی شکل میں مدد فراہم کی ہو۔‘‘

لوہمان نے خاص طور پر 200 جنگی طیاروں کی پرواز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ سوال باقی ہے کہ کیا ان طیاروں کو ہوائی ایندھن کی فراہمی میں امریکی فوج نے معاونت کی؟

ایران کا جوہری پروگرام نشانے پر

اسرائیلی حملے کا مرکز ایران کی فوجی تنصیبات اور جوہری پروگرام سے منسلک مقامات تھے، جن میں نمایاں طور پر نطنز جوہری تنصیب شامل ہے، جہاں یورینیم افزودہ کی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ اپریل 2025 سے تہران اور واشنگٹن کے درمیان ایک نئے جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات جاری تھے تاکہ 2018 میں سابق صدر ٹرمپ کے دور میں ختم ہونے والے معاہدے کی جگہ کوئی نیا سمجھوتہ کیا جا سکے۔

ایران جوہری بم حاصل نہیں کر سکتا، ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوز سے گفتگو میں کہا، ''ایران جوہری بم حاصل نہیں کر سکتا۔

ہم چاہتے ہیں کہ دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آئیں… دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘‘

لیکن ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا سائٹ ٹروتھ سوشل پر کہیں زیادہ سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے لکھا، ''میں نے ایرانی قیادت کو کئی مواقع دیے کہ وہ میرے ساتھ جوہری معاہدہ کرے، لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو انہیں ایسی تباہی کا سامنا ہو گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔

‘‘

ٹرمپ نے مزید لکھا، ''امریکہ دنیا میں سب سے جدید اور مہلک فوجی ساز و سامان تیار کرتا ہے اور اسرائیل کے پاس اس کا وافر ذخیرہ ہے اور مزید آنے والا ہے اور وہ اسے استعمال کرنا جانتے ہیں۔"

امریکی صدر نے دعویٰ کیا، ''ایرانی سخت گیر عناصر، جو جوہری معاہدے کے خلاف تھے، وہ سب اب مر چکے ہیں اور حالات مزید خراب ہوں گے۔

‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائی نے نہ صرف خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے بلکہ امریکہ کی غیریقینی پوزیشن پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اگرچہ واشنگٹن بظاہر لاتعلق نظر آتا ہے، مگر ٹرمپ کے سخت بیانات اور اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی اس تاثر کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔

کارلابلئیکر

ادارت: امتیاز احمد، رابعہ بگٹی

Live ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات