کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 جون2025ء) صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ حمید خان درانی نے کہا ہے کہ نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اولین ترجیح ہے، موجودہ ڈیجیٹل دور کے چیلنجز سے نمٹنے اور نئی نسل کو سچ اور جھوٹ کی تمیز سکھانے کے لیے میڈیا لٹریسی کو تعلیم کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان کے محکمہ تعلیم، بیورو آف کیوریکولم اور میڈیاٹز فاؤنڈیشن کے اشتراک سے کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب سے ماہرین تعلیم، صحافیوں اور پالیسی سازوں نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے ڈیجیٹل دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نئی نسل کو تعلیمی شعور دینے پر زور دیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر راحیلہ حمید درانی نے کہا کہ تعلیم یافتہ طبقے کو اگرچہ مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کا ادراک ہے لیکن ہمارے سکولوں میں نئی نسل اب بھی ان چیلنجز سے بے خبر ہے جو انہیں مستقبل میں درپیش ہوں گے۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ آج بھی ہماری یونیورسٹیوں میں 25 سال پرانے کمپیوٹرز ہیں اسی لیے ہم نے بجٹ میں کمپیوٹر لیبز اور جدید کمپیوٹرز کی فراہمی کو پہلی ترجیح دی ہے۔ پہلی مرتبہ ہم آئی ٹی اساتذہ کی بھرتی کا عمل بھی شروع کر رہے ہیں تاکہ طلبہ کو جدید تعلیم فراہم کی جا سکے۔انہوں نے نصاب کی بہتری میں محکمہ تعلیم کے ساتھ تعاون کرنے پرمیڈیاٹز فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کیا،ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کو محض الف، انار، ب بکری نہیں سکھانا بلکہ انہیں دورِ جدید کے مطابق تیار کرنا ہے۔
تعلیم ہی قوم کی بقا کی ضمانت ہے ہمیں نئی نسل کو مصنوعی ذہانت اور میڈیا لٹریسی سے متعلق چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ میڈیاٹز فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر ریحان تنولی نے تقریب میں بتایا کہ ان کی تنظیم ملک میں پہلی بار میڈیا فہم، ڈیجیٹل خواندگی، اے آئی اور روبوٹکس جیسے جدید کورسز کے ذریعے تعلیمی اصلاحات لا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیاٹز نے ’میڈیا مائنڈ‘ کے نام سے اردو اور انگریزی میں کورس تیار کیا ہے جو نہ صرف قومی نصاب کے خلا کو پُر کرتا ہے بلکہ اسے اسکولوں، کالجوں اور آن لائن پلیٹ فارمز پر بھی رائج کیا جا چکا ہے۔انہوں نے بتایا کہ کہ بلوچستان کے 3 لاکھ سے زائد طلبہ کے لیے یہ کورس متعارف کرایا جا چکا ہے جس کی تدریس کے لیے اساتذہ کی باقاعدہ تربیت جاری ہے۔
وفاقی تعلیمی اداروں کے 292 اسکولوں میں بھی اس کورس کا نفاذ ہو چکا ہے اور مجموعی طور پر 5 لاکھ سے زائد طلبہ اس سے مستفید ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر ریحان تنولی نے کہا کہ پاکستان میں 13 کروڑ سے زائد انٹرنیٹ صارفین ہیں جن میں 7 کروڑ کے قریب سوشل میڈیا صارفین شامل ہیں۔ اس کے باوجود 70 فیصد لوگ فیک نیوز کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ پاکستان میں روزانہ اوسطاً سکرین ٹائم 151 سے 171 منٹ تک ہے جو نئی نسل کے ذہن اور رویوں پر براہ راست اثر انداز ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا لٹریسی محض خبریں پڑھنے یا دیکھنے کا نام نہیں بلکہ ایک ایسی جامع مہارت ہے جو انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ معلومات کی سچائی کو کیسے پرکھا جائے، اس کے پس منظر کو کیسے سمجھا جائے اور ذمہ دارانہ طریقے سے مواد کیسے تخلیق کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک کثیر الثقافتی اور کثیر المذہبی ملک ہے۔ یہاں افواہوں، مذہبی جذبات بھڑکانے والی پوسٹس اور قوم پرستی پر مبنی نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، جن میں ڈیجیٹل فراڈ، آن لائن بلیک میلنگ اور ڈیٹا چوری شامل ہیں۔ ان سب کے خلاف ایک مؤثر دفاع میڈیا لٹریسی ہے۔ چیئرمین بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ ڈاکٹر گلاب خلجی نے بتایا کہ ابتدائی مرحلے میں بلوچستان کے سکولوں میں چھٹی سے بارہویں جماعت تک میڈیا لٹریسی پڑھائی جائے گی۔ یہ فیصلہ وقت کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ آن لائن خطرات، تعصب، فیک نیوز اور سوشل میڈیا کے نفسیاتی اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
تقریب سے سپیشل سیکرٹری تعلیم عبدالسلام اچکزئی، پراجیکٹ ڈائریکٹر فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن ڈاکٹر تبسم ناز اور ڈائریکٹر بیورو آف کیوریکولم سعید احمد خان نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ میڈیا لٹریسی کو قومی تعلیمی پالیسی کا لازمی جزو بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان باشعور، ذمہ دار اور تنقیدی سوچ کے حامل شہری بن سکیں۔پینل ڈسکشن میں یونیورسٹیوں کے میڈیا اساتذہ، سینئر صحافیوں اور محققین نے بھی شرکت کی۔ طلبہ نے سوالات پوچھے ۔ ماہرین نے کہا کہ میڈیا لٹریسی کو نہ صرف اسکولوں بلکہ کالجوں اور جامعات میں بھی شامل کیا جائے گا اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو ہر بچے تک پہنچانے کے لیے سرکاری و نجی شعبے مل کر کام کریں۔