لاہور ہائیکورٹ کی گواہوں کے بیانات انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کرنے کی ہدایات

عدالت نے یہ فیصلہ محمد عرفان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے سے متعلق کیس میں سنایا، عدالتوں میں اردو زبان کے استعمال سے متعلق 1973 کا نوٹیفکیشن موجود ہے مگر بدقسمتی سے آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، جسٹس طارق ندیم

Faisal Alvi فیصل علوی جمعہ 20 جون 2025 12:35

لاہور ہائیکورٹ کی گواہوں کے بیانات انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20جون 2025)لاہور ہائیکورٹ نے گواہوں کے بیانات انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کرنے کی ہدایات جاری کر دیں،لاہور ہائیکورٹ نے ایک اہم عدالتی فیصلے میں ٹرائل کورٹس کو ہدایت جاری کی ہے کہ گواہوں کے بیانات انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کئے جائیں، جسٹس طارق ندیم نے ایک اہم فیصلے میں کہا کہ عدالتوں میں اردو زبان کے استعمال سے متعلق 1973 کا نوٹیفکیشن موجود ہے مگر بدقسمتی سے آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔

عدالت نے یہ فیصلہ محمد عرفان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے سے متعلق کیس میں سنایا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ محمد عرفان پر شہری عبدالناصر کو فائرنگ کر کے قتل کرنے کا الزام ہے تاہم مقدمے کے دوران اہم قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔

(جاری ہے)

فیصلے میں کہا گیا کہ موقع پر موجود دو چشم دید گواہوں کے بیانات میں تضاد سامنے آیا جو ممکنہ طور پر انگریزی ٹائپنگ کی غلطی کا نتیجہ تھا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ گواہوں کے بیانات کا اردو ترجمہ عدالتی ریڈر نے ملزم کی غیر موجودگی میں کیا جو قانونی خلاف ورزی ہے۔ مزید کہا گیا کہ پریزائیڈنگ آفیسر سے انگلش ٹائپنگ کی غلطی ہوئی جس سے بیان میں تضاد پیدا ہوا۔عدالت نے واضح کیا کہ ماتحت عدالتوں میں اردو زبان میں بیانات درج کرنے کا نوٹیفکیشن پہلے سے موجود ہے مگر تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں اب بھی گواہوں کے بیانات صرف انگریزی زبان میں ریکارڈ کئے جاتے ہیں جس سے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں خاص طور پر جب اردو ترجمہ گواہ کی غیر موجودگی میں کیا جائے۔جسٹس طارق ندیم نے مزید یہ بھی لکھا ہے کہ قانون کے مطابق گواہوں کے بیانات ان کی مادری زبان میں تحریر کئے جانے چاہئیں اور یہ عمل ملزم یا اس کے نمائندے کی موجودگی میں ہونا چاہیے۔

چشم دید گواہوں، میڈیکل رپورٹس اور دیگر شواہد کی روشنی میں استغاثہ نے مقدمہ ثابت کر دیا تاہم ترجمے کی خرابی کی وجہ سے سزا میں نرمی برتی گئی۔فیصلے میں عدالت نے کہا کہ قانون کی منشا یہی ہے کہ ماتحت عدالتوں میں اردو زبان کا استعمال کیا جائے اور بیانات گواہوں کی مادری زبان میں درج کیے جائیں، تاکہ شفاف اور درست عدالتی کارروائی یقینی بنائی جا سکے۔

عدالت نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو حکم دیا کہ یہ فیصلہ تمام سیشن ججز، سپیشل ججز اور وزارت قانون و انصاف کو ارسال کیا جائے ساتھ ہی تمام عدالتی افسران کو ہدایت دی گئی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ گواہوں کے بیانات ان کی موجودگی میں انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی تحریر کئے جائیں۔عدالت نے کیس میں موجود تضادات اور ترجمے کی خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد عرفان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔