م* آم کی برداشت،پیکنگ و ترسیل گذشتہ چند سالوں سے آم کی برآمدات میں مسلسل اضافہ

بدھ 25 جون 2025 20:30

oجڑانوالہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 جون2025ء) آم دنیا میں پاکستان کی پہچان اور موسم گرما کا مقبول ترین پھل ہے اور گذشتہ چند سالوں سے آم کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔آم کو مخصوص خوشبو، لذت، ذائقہ، غذائی اور طبی خصوصیات کے اعتبار سے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی پھل کی بہتر قیمت اور اچھی کوالٹی حاصل کرنے کیلئے باغبانوں کو پھل کی پختگی کے امر کو جانچنے کے علاوہ اس کی بروقت برداشت، درجہ بندی، پیکنگ و سنبھال بارے معلومات حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔

با غبان شبانہ روز کی محنت کے بعد آم کا پھل حاصل کرتے ہیں اور قدرت بھی اپنی تمام تر خوبیوں کو اس میں شامل کرتی ہے لیکن جب انسانی ہا تھوں کا لمس اس کو ملتا ہے تو یہ اپنی رعنائیاں کھونا شروع کر دیتا ہے۔

(جاری ہے)

باغبان آم کے پھل کو درخت سے الگ کرنے کے مرحلہ کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ صحیح فیصلہ کرنے پر ہی آم کے پھل کی کوالٹی کا انحصار ہوتا ہے۔

جب پھل میں مٹھاس یا شکر کی مقدار 10 سے 12 ڈگری برکس ہو جائے تو آم کا پھل برداشت کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس مرحلہ پر آم کو درخت سے توڑلیا جائے تو پکنے پر آم کی تمام خصوصیات بہتر طور پر نمایاں ہوتی ہیں۔ اگر آم کو برآمد کرنا مقصود ہو تو پھر شکر کی مقدار 8 سے 10 ڈگری برکس ہونی چاہیے کیونکہ اس سے آم کے پھل کی بعداز برداشت زندگی بڑھ جاتی ہے۔

پھل کی برداشت کامطلب اس کو صحیح طور پر درخت سے اتارنا اور اکٹھا کرنا ہے۔ اس کیلئے باغبانوں کو ان سفارشات پر عمل کرنا چاہئے تاکہ پھل کا نقصان کم سے کم ہو۔برداشت کے وقت پھل تک بر اہ راست رسا ئی حا صل کی جائے جبکہ پھل کو ڈنڈی سمیت کاٹ کر تھیلے میں ڈالا جائے اور پھل کوچوٹ لگنے سے ہر حالت میں بچایا جائے۔اگر پھل کو ڈنڈی کے بغیر کاٹا جائیگا تو ایک سیال مادہ (دھودک)بہہ کر پھل کی سطح پر جم جا ئیگا جودرج ذیل تین قسم کے مسائل پیداکرتاہے۔

پھل کی سطح پر گردوغبار جم جاتا ہے جس سے پھل انتہائی گندہ دکھائی دیتا ہے۔اس سیا ل مادہ میں نشاستہ دار غذائی عناصر موجود ہوتے ہیں جن پر پھپھوندی لگ جاتی ہے اور بیماریوں کا موجب بنتی ہے۔پھل خراب ہونا شروع ہوجاتاہے جب یہ پھل مارکیٹ پہنچتا ہے تو انتہائی خراب صورت اختیار کر چکاہوتاہے۔یہ سیا ل مادہ چھلکے کو بھی متاثر کرتا ہے اور پھل کی متاثرہ سطح رنگ دار یا دھبے دار ہوجاتی ہے جس سے پھل کا معیار گر جاتا ہے۔

اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ بوقت برداشت ڈنڈی 5 ملی میٹر تک پھل کے ساتھ رہنے دی جائے جس کو بعد ازاں کا ٹ کر علیحدہ کر دیا جائے۔آم کی برداشت کے وقت موسم انتہائی گرم ہوتا ہے جس کا آم کے پھل پر کافی برا اثرپڑتا ہے۔ اس لئے باغبانوں کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ پھل کی برداشت صبح کے وقت کریں کیونکہ دن کی گرمی کے اثر کو رات کی ٹھنڈک کافی حد تک کم کر چکی ہوتی ہے۔

ہاتھوں یا قینچی کی مدد سے آم کو اس کی شاخ سمیت aدرخت سے الگ کیا جائے۔ پھل کو کسی بھی حالت میں زمین پرگرنے سے بچایا جائے۔آم کی سطح پر لگی ہوئی چوٹ آم کے پھل کی کوالٹی کو خراب کر دیتی ہے جس کا پتہ پھل کے پکنے پر چلتا ہے اورپھل ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔ توڑے گئے پھل کو باغ کے اندر سایہ دار جگہ پر رکھا جائے کیونکہ سورج کی گرمی سے آموں کی بعد از برداشت زندگی کو نقصان پہنچتا ہے۔

پھل کو آہستگی کے ساتھ کسی ملائم ٹوکری یا تھیلے میں رکھا جائے اور جب 15 یا 20 کلوگرام آم جمع ہوجائیں تو ٹوکری خالی کر دی جائے ورنہ نیچے والے آموں پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ آم بھی ایک جاندار شے ہے جو کہ زیادہ گرمی کی وجہ سے بہت زیادہ بے سکونی محسوس کرتا ہے۔ اس کی اس حالت کو سکون میں بدلنے کیلئے اس کو فوری طورپر ٹھنڈا کرنا ضروری ہے۔عام طور پر آم کے پھل کو سرد پانی میں ٹھنڈا کیا جاتا ہے اوراس کا آسان طریقہ برف سے ٹھنڈے کئے ہوئے پانی کا استعمال ہے۔

اس عمل کے دوران اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ آم کے پھل کو برف چھونے نہ پائے ورنہ اس کی اندرونی جلد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر آم کا پھل برآمد کرنا مقصود ہو تواس کو سرد خانوں میں ٹھنڈا کرنا نہا یت ضروری عمل ہے۔ سبزآم یعنی کچے پھل کو ہم تقریباًً تین یا چار ہفتے سرد خانوں میں رکھ سکتے ہیں۔ گرم پا نی کا طریقہ صرف ان آموں کیلئے استعمال کرنا چاہیے جو پختگی کے قریب نہ ہوں کیونکہ پختگی کے نزدیک پہنچے ہوئے آموں کو اگر گرم پانی میں ڈبویا جائے تو پکنے کے بعد ان کا معیار خراب ہوسکتا ہے جس میں جلد کی رنگت اور ذائقہ میں غیر مناسب تبدیلی شامل ہیں۔

آم کے پھل کی درجہ بندی بلحاظ وزن اور جسامت کی جاتی ہے مختلف سائز اور کوالٹی کے پھل الگ کردئیے جاتے ہیں۔ ہر آم کی شکل اور سائز دوسر ے سے مختلف ہوتا ہے اس لئے یہ بہتر خیال کیا جاتا ہے کہ ہرآم کی درجہ بندی بلحاظ وزن کا پیمانہ اپنایا جائے۔رنگ کے لحاظ سے کی جانے والی درجہ بندی سب سے موزوں خیال کی جاتی ہے کیونکہ ایک رنگ کے پھل ایک وقت پر پک کر تیار ہو جاتے ہیں۔

صحیح اور مناسب پیکنگ آم کی مارکیٹنگ کے لیے ضروری ہے۔ پیکنگ کے لیے گتے کے مضبوط اورہوا دار ڈبے استعمال کرنے چاہئیں۔ پیک کا سائز کل وزن اور کل تعداد کی بنیاد پر کیا جاتا ہے یعنی 4.5 کلو گرام والے ڈبے میں 8 یا 10 آم بھی قابل قبول ہوتے ہیں اس کا فیصلہ درآمد کنندہ کی رائے سے کیا جاتا ہے۔ پیک ہاؤس میں پھل کو دھونے کے بعد 2 درجوں میں تقسیم کیا جائے۔

پہلا درجہ ایسے پھلوں پر مشتمل ہوجن کو تازہ پھل کے طور پر براہ راست استعمال کیا جائے جبکہ دوسرے درجے میں وہ پھل شامل ہوں جن سے مختلف اقسام کی غذائی مصنوعات تیار کی جاتی ہوں مثلاً مربہ جات، جیم اور سکوائش وغیرہ۔ اندرون ملک مارکیٹنگ کرتے وقت آم کو لکڑی کی پیٹیوں میں اخبا ر کی مدد سے پیک کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات پیٹی اتنی بھر دی جا تی ہے کہ پھل پر دباؤ بہت بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے آم کی شکل اور پکائی دونوں متاثر ہوتے ہیں اور کافی پھل ضائع ہوجاتا ہے۔

علاوہ ازیں سی گریڈ یا مسترد کیے گئے آم کو مختلف مصنوعات مثلاً آم کی چٹنی، آمچوراور آم کا اچار وغیرہ میں استعمال کر سکتے ہیں۔ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اس نئے دور میں پھلوں اور سبزیوں کو لیبل لگانے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ لیبل پر جس جگہ درآمد اور برآمد کنندہ کا نام ہوتا ہے وہاں پر پھلوں کی کل تعداد، کل وزن اورقسم کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر پھلوں اور سبزیوں پر کوئی فیومیگنٹ یا فنجے سائیڈوغیرہ استعمال کئے گئے ہوں تولیبل پر ان کی بھیMRLs کے ذریعے نشاندہی کی جاتی ہے اگر آپ اپنے مال کو کسی خاص تجارتی نام یاٹریڈ مارک کے لیبل کے تحت برآمد کرنا چاہیں تو اسے بہتر تصور کیا جاتا ہے۔ مقامی مارکیٹ یا بیرون ملک درآمد کیلئے آم کے پھل کی ترسیل کے وقت گرمی سے بچانے کیلئے ٹھنڈی گاڑیوں کا استعمال کیا جائے اگر یہ سہولت دستیاب نہ ہو تو پھل کی ترسیل رات کے وقت ہوادار گاڑی کے ذریعے کی جائے۔

گاڑی پر پھل لوڈ کرنے کے دوران اس بات کا خیال رکھا جائے کہ گتے کے ڈبے یا کریٹ کھلے نہ چھوڑے جائیں بلکہ انہیں اس طرح باندھا جائے کہ دوران سفر یہ ڈبے زیادہ حرکت نہ کرسکیں۔ پھلوں کیلئے 85 سی95 فیصد نمی کا تناسب تجویز کیا گیا ہے اگر باہر نمی کا تناسب کم ہو تو پھلوں کے اندر پانی کی کمی واقع ہونے لگتی ہے جس سے پھل کی بعد از برداشت زندگی کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے۔