جانیے کہ ترقی پر سرمایہ کاری کا کیا مطلب ہے؟

یو این جمعہ 27 جون 2025 10:30

جانیے کہ ترقی پر سرمایہ کاری کا کیا مطلب ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 27 جون 2025ء) دنیا کو غربت اور بھوک پر قابو پانے، موسمیاتی تبدیلی کو روکنے اور عدم مساوات میں کمی لانے کے لیے ہر سال مزید 40 کھرب ڈالر درکار ہیں۔ ان مسائل کا حل پائیدار ترقی کے 17 اہداف میں بھی شامل ہے جنہیں دنیا نے 2030 تک حاصل کرنا ہے۔

تمام ممالک نے ان اہداف کے حصول پر اتفاق رائے کیا ہے لیکن موجودہ عالمی صورتحال اور ناکافی مالی وسائل کے باعث ان تک پہنچنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔

اسی تناظر میں 30 جون سے سپین کے شہر سیویل میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام مالیات برائے ترقی کے موضوع پر چوتھی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے۔ اس میں عالمی رہنما، ماہرین معاشیات اور پالیسی ساز ترقیاتی مقاصد کو حاصل کرنے کے پائیدار طریقے اور مالی وسائل کے نئے ذرائع تلاش کرنے کے لیے بات چیت کریں گے۔

(جاری ہے)

اسے پائیدار ترقی کے لیے مالی وسائل پیدا کرنے کے طریقوں پر ازسرنو غور کرنے کے لیے ایک دہائی کے عرصہ میں اہم ترین موقع قرار دیا گیا ہے۔

مالیات برائے ترقی کیا ہے؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا مزید منصفانہ امدادی، تجارتی اور ترقیاتی نظام کے لیے مالی وسائل کیسے جمع کرے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے کو ایسی شکل دی جائے کہ تمام ممالک بالخصوص ترقی پذیر ملک اپنے مستقبل پر حسب ضرورت سرمایہ کاری کرنے اور اپنے شہریوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی کے قابل ہوں۔

© ADB/Eric Sales
انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ اور دلی کے درمیان ایکسپریس وے پر کام شروع ہوچکا ہے۔

عالمی مالیاتی نظام کی ناکامی

دنیا بھر کے کروڑوں افراد موجودہ عالمی مالیاتی نظام کی ناکامی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، سرمایہ کاری محدود ہو رہی ہے اور ترقیاتی امداد میں کمی آ رہی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو 2030 تک تقریباً 60 کروڑ افراد انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہوں گے۔

اس وقت 3.3 ارب لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جنہیں قرضوں کی ادائیگی پر صحت اور تعلیم سے زیادہ وسائل خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

اصلاحات کی ضرورت

معاشی عدم توازن، تجارتی رکاوٹیں اور ہر سال ترقیاتی امداد میں آنے والی کمی اس بات کا ثبوت ہیں کہ مروج عالمی مالیاتی نظام قابل عمل نہیں رہا۔ سیویل میں ہونے والی کانفرنس اس رجحان کو بدلنے کا موقع فراہم کرے گی جہاں ممالک اور ادارے مالیاتی اصلاحات اور انسانی فلاح کو ترجیح دینے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کریں گے۔

یہ کانفرنس ترقی پذیر ممالک کو بھی فیصلہ سازی میں موثر نمائندگی کا موقع دے گی۔

قرضوں کا بوجھ اور عدم ترقی

ترقی پذیر ممالک کو نہ صرف مہنگے قرضوں کا سامنا ہے بلکہ وہ بحرانوں کے دوران ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مالی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں وہ اپنی معیشتوں کو مستحکم کرنے کے لیے مطلوبہ مقدار میں سرمایہ کاری نہیں کر پاتے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ موجودہ عالمی مالیاتی نظام میں ترقی پذیر ممالک کے لیے پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔

UN News/Daniel Dickinson
مڈغاسکر میں سائیکل رکشوں پر کوئلہ بازاروں کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

سیویل کانفرنس سے وابستہ امیدیں

سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ غربت، بھوک اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے بڑے تصورات اور جرات مندانہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سیویل میں ہونے والی کانفرنس عالمی مالیاتی نظام کو ازسرنو ترتیب دینے کا نادر موقع ہے جو متروک، غیرفعال اور غیرمنصفانہ ہو چکا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے کانفرنس کے حتمی اعلامیے سے اختلاف کرتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کیا ہے لیکن دنیا کے دیگر ممالک اصلاحات پر اتفاق کر چکے ہیں۔

مستقبل کی راہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ اصلاحات اسی صورت کامیاب ہو سکتی ہیں جب نجی و سرکاری ادارے اور ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک باہم مل کر ترقیاتی اہداف کو ترجیح دیں۔ اس میں قرضوں کی ترتیب نو، سرمایہ کاری کی لاگت میں کمی لانا اور نئے مالیاتی طریقے متعارف کروانا شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے معاشی و سماجی امور میں مالیات برائے ترقی کے شعبے کی ڈائریکٹر شاری سپیگل کہتی ہیں کہ سیویل کانفرنس اختتام نہیں بلکہ ایک نئی شروعات ہے جس میں کیے جانے والے وعدوں پر عملدرآمد ہی اصل کام ہو گا۔