جدت اور صارفین کا رجحان چین کی معاشی مضبوطی کا محرک بن گیا

کہ چین کی معیشت بدستور مضبوطی ہو رہی ہے ، بین الاقوامی کمپنیوں تنوع کے لیے چین مرکزی حیثیت رکھتا ہے، معاشی و صنعتی ماہرین

جمعہ 27 جون 2025 22:51

تیانجن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2025ء)عالمی ماہرین معیشت اور صنعت کاروں نے کہا ہے کہ چین کی معیشت بدستور مضبوطی ہو رہی ہے جسے متحرک مقامی صارفین اور تیزی سے ترقی کرتا ہوا جدت طراز نظام سہارا دے رہا ہے۔ ان خیا لات کا اظہار انہوں نے تیانجن میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر کیا۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق ایم سی کنزی گریٹر چائنہ کے چیئرمین جوزف لک نگی نے کہا کہ جو بین الاقوامی کمپنیاں تنوع کی تلاش میں ہیں، ان کے لیے چین اب بھی ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

جب کمپنیاں پلان بی کی بات کرتی ہیں، تب بھی چین اس پلان کا ایک بڑا حصہ بنتا ہے، ۔ایم سی کنزی کے رواں ماہ جاری کردہ حالیہ سروے کے مطابق چین میں صارفین کا اعتماد مستحکم ہو رہا ہے، خصوصاً دیہی علاقوں میں لوگ زیادہ پٴْرامید دکھائی دے رہے ہیں، جہاں دیہی ترقی کی پالیسیوں اور آمدن میں تیزی سے اضافے نے مثبت اثر ڈالا ہے۔

(جاری ہے)

چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق نگی نے زور دے کر کہا صارفین اب سستے کی طرف نہیں جا رہے، بلکہ وہ سمجھ دار ہو رہے ہیں، وہ اسی معیار کو بہتر قیمت پر تلاش کر رہے ہیں، اور چین کی انتہائی مسابقتی منڈی اس میں مدد کر رہی ہے، جہاں معیاری متبادل اشیاء کی وسیع رینج دستیاب ہے، جس سے زندگی کا مجموعی معیار بہتر ہو رہا ہے۔

چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق چین میں صارف اشیائ کی ریٹیل فروخت مئی میں سالانہ بنیاد پر 6.4 فیصد بڑھی، جو دسمبر 2023 کے بعد سب سے زیادہ شرح ہے۔ نوجوان صارفین تجرباتی اخراجات کو ترجیح دے رہے ہیں، کام اور ذاتی زندگی کے توازن کو اپناتے ہوئے دوسرے اور تیسرے درجے کے شہروں میں اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہیں، جس سے اعلیٰ معیار کی مینوفیکچرنگ اور مقامی خدمات میں اندرونی رفتار پیدا ہو رہی ہے۔

چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق صارفین کی سوچ میں یہ تبدیلی گہرے رجحانات کی نشاندہی کرتی ہی: ذاتی کامیابی کی بڑھتی ہوئی خواہش۔ ایم سی کنزی کی رپورٹ کے مطابق چینی صارفین خود کو بہتر بنانے اور طرزِ زندگی کو نکھارنے والی مصنوعات اور خدمات کی طرف مائل ہو رہے ہیں، جیسے فٹنس، تعلیم اور ڈیجیٹل ٹولز۔ چین مستقبل کی اہم صنعتوں میں عالمی رہنما کے طور پر بھی ابھر رہا ہے۔

چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق ایم سی کنزی نے 18 ایسے شعبوں کی نشاندہی کی ہے جن سے 2040 تک عالمی سطح پر 29 سے 48 کھرب ڈالر کی آمدن متوقع ہے۔ نگی نے ورلڈ اکنامک فورم کی ویب سائٹ پر شائع اپنے مضمون میں لکھا کہ چین ان تیزی سے ترقی کرتے شعبوں میں ترقی کے لیے بہترین پوزیشن میں ہے، جیسے مصنوعی ذہانت، الیکٹرک گاڑیاں اور روبوٹکس۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق انہوں نے کہاکہ اے آئی پر مبنی خدمات میں، علی بابا اور بائیڈو جیسی بڑی انٹرنیٹ و ای-کامرس کمپنیاں مصنوعی ذہانت کو ذاتی تعلیم، ویڈیو سازی اور کاروباری سافٹ ویئر میں شامل کر رہی ہیں، جبکہ ڈیپ سیک جیسے نئے اداروں نے بڑی سطح پر AI ماڈلز میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

چین کی EVsبیٹریوں اور روبوٹکس میں پیش رفت مستقبل کی ترقی کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ روبوٹکس میں، سروس روبوٹس لاجسٹکس اور ای-کامرس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق ایم سی کنزی کے مطابق، اس وقت چین میں 4200 سے زائد میکر اسپیسز، 3,200 کاروباری انکیوبیٹرز اور 4000 سے زائد ایکسیلیریٹرز موجود ہیں، جو گراس روٹ سطح پر جدت کی بھرپور ثقافت کو ظاہر کرتے ہیں۔

چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق او ای سی ڈی میں چائنہ یونٹ کے سربراہ کریم دحو نے چین کی پائیدار ترقی کی تین اہم بنیادوں کا ذکر کیا: کھلی تجارتی پالیسیاں، عالمی معیار کا انفراسٹرکچر، اور اعلیٰ درجے کی تعلیم۔ انہوں نے کہاکہ دو تہائی بین الاقوامی تجارت درمیانی اشیاء پر مشتمل ہے۔ چین کا معیاری اشیاء کی درآمد کے لیے کھلا ہونا اس کی صنعتی مسابقت کے لیے اہم ہے۔

بیجنگ، شنگھائی، اور جیانگسو جیسے مشرقی علاقے دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر بی وائی ڈی کمپنی کے ایک ملین سے زائد ملازمین میں سے 10 فیصد سے زیادہ انجینئرز ہیں، جو ترقی کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔جب صنعتیں ترقی کرتی ہیں، تو وہ عالمی کاروبار کے لیے کشش کا باعث بنتی ہیں۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق کنسلٹنگ فرم بیرنگ پوانٹ کی پارٹنر اور گلوبل ہیڈ آف مارکیٹس ایلزبتھ ڈینر نے چین کو ’’سب سے زیادہ پٴْرامید اور متوقع مارکیٹ‘‘ قرار دیا۔

جرمن چیمبر آف کامرس اور بیرنگ پوانٹ کی مرتب کردہ "انوویشن رپورٹ 2024" کے مطابق، چین میں موجود تقریباً 63 فیصد جرمن کمپنیاں مقامی سطح پر پراڈکٹ ریسرچ و ڈیولپمنٹ کر رہی ہیں، جو چین کے جدت طراز نظام پر اعتماد کا مظہر ہے۔ چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق کیمیائی صنعت کی کمپنی Syensqo کی سی ای او، الہام قدری نے چین کی اس شعبے میں برتری پر زور دیا۔

"آج دنیا کی نصف کیمیائی پیداوار چین میں ہو رہی ہے۔ 2030 تک یہ تناسب دو تہائی ہو جائے گا۔ ایک جدت پر مبنی معیشت کے ساتھ، چین ہماری صنعت میں عالمی رہنما بن چکا ہے۔" چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق دنیا کی دوسری بڑی فوڈ و بیوریج کمپنی پیپسی کو کے ایگزیکٹو نائب صدر اسٹیفن کیہو کا کہنا تھا کہ چین نہ صرف ایک بڑی صارف مارکیٹ ہے بلکہ برانڈ کی طویل المدت ترقی کے لیے بھی ایک اہم مرکز ہے۔ انہوں نے کہا یہ خود میں ایک بڑی، پائیدار مارکیٹ ہے، جس کی وسیع صارف بنیاد ہمیں چین میں چین کے لیے کاروبار بڑھانے کی سہولت دیتی ہے۔ صارفین سے گہرے اور خالص تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت چین کو منفرد بناتی ہے۔