اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جون 2025ء) اس ریسرچ سے لیکن یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی کہ کسی حاملہ خاتون کو اگر لمبے عرصے تک فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑے، تو آیا نامولود بچے کی دماغی ساخت میں پیدا ہونے والا فرق پیدائش کے بعد اس بچے کے لیے طبی مسائل کی وجہ بھی بنتا ہے۔
نوزائیدہ بچے کی ہچکی دماغی نشوونما کا بنیادی ذریعہ ہو سکتی ہے، مطالعہ
اس موضوع پر طبی تحقیقی جریدے 'لینسیٹ پلانیٹری ہیلتھ‘ کی تازہ اشاعت میں چھپنے والے حقائق ایک ایسی ریسرچ کے نتائج ہیں، جو اسپین کے شہر بارسلونا میں مکمل کی گئی۔
یہ تحقیق 2018 سے لے کر 2021 تک کے عرصے کے دوران 754 ایسی حاملہ خواتین اور ان کے جنینوں کے تفصیلی طبی معائنوں کے ساتھ مکمل کی گئی، جن کے حمل کو اسٹڈی کے آغاز پر تقریباﹰ چھ ماہ ہو چکے تھے۔
(جاری ہے)
نیورو سونوگرافک ٹیسٹ
اس تحقیق کے دوران ماہرین نے ان خواتین اور ان کے نامولود بچوں یا جنینوں کا مطالعہ جس طبی ڈیٹا کی مدد سے مکمل کیا، وہ حمل کے ساتویں مہینے کے شروع سے لے کر زچگی کے عمل تک کا ڈیٹا تھا۔
حمل گر جانے پر بھی جرمنی میں زچگی کی چھٹیاں ممکن
حمل کے 28 ویں ہفتے سے لے کر 40 ویں ہفتے تک ہر حاملہ خاتون کے لیے یہ تقریباﹰ تین ماہ کا عرصہ بنتا ہے۔ اس ریسرچ اسٹڈی کے دوران محققین نے تمام حاملہ خواتین کے جنینوں کے وقفے وقفے سے نیورو سونوگرافک ٹیسٹ کیے۔
یہ ایسے خاص طرح کے الٹرا ساؤنڈ ٹیسٹ تھے، جن کی مدد سے کسی بھی جنین یا fetus کے دماغ کی ساخت اور اندرونی دماغی ڈھانچوں کا مشاہدہ اور تجزیہ کیا جاتا ہے۔
اس تحقیق کے نتیجے میں ماہرین یہ پتہ چلانے میں کامیاب ہو گئے کہ حاملہ خواتین کو ان کے گھروں میں، کام کی جگہوں پر اور روزمرہ زندگی میں سفر کے راستوں میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، بہت باریک ذرات کی شکل میں مختلف مادوں اور سیاہ کاربن کی موجودگی کی جن شرحوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کا اثر ان کے جنینوں کی دماغی نشو و نما پر بھی پڑتا ہے۔
جنین کے مرکزی اعصابی نظام پر اثرات
اس ریسرچ کے باعث ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ حاملہ خواتین کو جتنی زیادہ فضائی آلودگی کا سامنا رہتا ہے، اتنا ہی ان کے جنینوں کے دماغوں میں cerebrospinal fluid والے حصوں کا حجم بھی زیادہ ہوتا ہے۔
سیریبرو سپائنل فلوئڈ ایک شفاف، بے رنگ سیال مادہ ہوتا ہے، جو مرکزی اعصابی نظام یعنی دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے ارد گرد پایا جاتا ہے اور اعصابی نظام کے ان دونوں بہت حساس حصوں کی پوری طرح حفاظت کرتا ہے۔
پوسٹپارٹم ڈپریشن مردوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے؟
ماہرین نے اس تحقیق سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ حاملہ خواتین کے جنینوں کے دماغوں میں اس سیال مادے والے حصوں کا حجم مختلف تو تھا، لیکن مجموعی طور پر ان تمام اعصابی حفاظتی ڈھانچوں کی پیمائشوں کو معمول کے مطابق قرار دیا جا سکتا تھا۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسپین میں بارسلونا کے گلوبل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے ریسرچر اور اس تحقیقی رپورٹ کے سینیئر شریک مصنف خوردی سونائر نے ایک بیان میں کہا، ''اس ابتدائی مرحلے پر ہم صرف یہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ ہم نے رحم مادر میں زیادہ فضائی آلودگی کا سامنا کرنے والے جنینوں کے دماغوں کو کم آلودگی کا سامنا کرنے والے جنینوں کے دماغوں سے کئی حوالوں سے مختلف پایا۔
‘‘اعصابی نظام پر اثرات کا عرصہ اور طبی نتائج غیر واضح
بارسلونا کے گلوبل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے محقق خوردی سونائر نے کہا، ''یہ طے کرنے کے لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ آیا جنین کے دماغی ڈھانچوں میں یہ فرق اور فضائی آلودگی کے ایسے اثرات پیدائش کے بعد خود بخود ختم ہو جاتے ہیں یا نہیں۔ اور اگر وہ باقی رہتے بھی ہیں، تو کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایسے کسی بچے کی دماغی صحت اور نشو و نما کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
‘‘'سی سیکشن‘ نجی ہسپتالوں کا منافع بخش کاروبار
اس کئی سالہ تحقیق کی تکمیل پر طبی ماہرین یہ طے کرنے میں بھی کامیاب رہے کہ اگر کسی حاملہ خاتون کو اپنے حمل کے آخری تین مہینوں میں سیاہ کاربن والی فضائی آلودگی کا بہت زیادہ سامنا کرنا پڑے، تو اس کا نتیجہ جنین کے دماغ کے ایک خاص حصے کی گہرائی میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔
انسانی دماغ کے اس حصے کو لیٹرل سلکس کہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق lateral sulcus کی کم گہرائی دماغی نشو و نما اور ذہنی بلوغت کے عمل کے معمول سے کم رہنے کا اشارہ ہو سکتی ہے۔