اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جون 2025ء) ترکوں کے لیے جرمنی، چاہے وہ زندگی، کام یا تعلیم کے لیے ہو، تیزی سے پرکشش بنتا جا رہا ہے۔ امیگریشن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سن 2024 میں کل 22,525 ترک شہریوں کو جرمن پاسپورٹ ملے، جو 2023 کے مقابلے میں 110 فیصد اضافہ ہے۔
اب ترکی، شام کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، جہاں کے سب سے زیادہ شہریوں کو جرمن پاسپورٹ مل رہے ہیں۔
علاز سمیر ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے شہریت کے لیے درخواست دی تھی۔ وہ تقریباً آٹھ سال پہلے جرمنی میں اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے آئے تھے۔ اب وہ برلن میں ایک وکیل کے طور پر ایک این جی او کے لیے کام کرتے ہیں اور آئینی قانون میں ڈاکٹریٹ مکمل کر رہے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شہریت حاصل کرنا ہر تارک وطن کا مقصد ہوتا ہے کیونکہ یہ زیادہ عملی ہے، ''ورنہ آپ ہمیشہ بیوروکریسی سے نمٹتے رہتے ہیں اور یہاں یہ بہت پیچیدہ ہے۔
(جاری ہے)
بوراک کیچیلی، جو استنبول کی معروف بوغازیچی یونیورسٹی سے گریجویٹ آئی ٹی ماہر ہیں، سن 2016 میں کیریئر کے مواقع کے لیے جرمنی آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کئی سال نجی شعبے میں کام کر چکے ہیں اور آج بھی برلن میں رہتے ہیں۔
اپنی ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ''میں برسوں سے جرمنی میں رہ رہا ہوں اور روانی سے جرمن بولتا ہوں۔
اتنا وقت گزرنے کے بعد میں سیاسی طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ جرمن پاسپورٹ کی طاقت بھی ایک اہم عنصر تھی… اس کے ساتھ، میں دنیا کے کئی ممالک میں بغیر ویزہ کے سفر کر سکتا ہوں۔‘‘سن 2025 کے گلوبل پاسپورٹ انڈیکس کے مطابق، جو پاسپورٹس کی ویزہ فری ممالک کی تعداد کے لحاظ سے درجہ بندی کرتا ہے، متحدہ عرب امارات، اسپین، سنگاپور اور فرانس کے بعد جرمنی دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
جرمن پاسپورٹ کے ساتھ دنیا کے 131 ممالک میں ویزہ فری انٹری حاصل کی جا سکتی ہے، جبکہ ترک پاسپورٹ صرف 75 ممالک تک رسائی دیتا ہے۔
دوہری شہریت ایک بڑی ترغیب
جرمنی کی جون 2024ء کی شہریت اصلاحات نے اس رجحان کو بڑھاوا دیا، جس میں دوہری شہریت تارکین وطن کے لیے دوسرا پاسپورٹ حاصل کرنے کی ایک بڑی ترغیب بنا۔
مثال کے طور پر علاز سمیر کہتے ہیں کہ وہ ترک شہریت چھوڑنے کے خواہشمند نہیں تھے، ''میں اپنے ووٹ کے حق سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا‘‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ترک پاسپورٹ کا فائدہ ان ممالک میں ہے، جہاں ترکی کے جرمنی سے بہتر تعلقات ہیں۔ بوراک کیچیلی بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ وہ دو پاسپورٹس رکھنے کے امکان کو ''بہت مثبت‘‘ قرار دیتے ہیں۔جرمنی کی گزشتہ حکومت نے شہریت حاصل کرنے کے لیے رہائش کی مدت کو آٹھ سے کم کر کے پانچ سال کر دیا تھا اور ان لوگوں کے لیے تین سال، جو غیر معمولی انضمام کا مظاہرہ کر سکتے تھے۔
تاہم اب نئی حکومت نے مئی 2025ء میں تین سالہ قانون کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن نئی حکومت نے دوہری شہریت کے ماڈل کو برقرار رکھا ہے، یعنی تارکین وطن اپنا اصل پاسپورٹ بھی رکھ سکتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہت اہم ہے جو کہیں اور سے جرمنی آئے ہیں۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے تک تمام تارکین وطن، سوئس اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے پاسپورٹ ہولڈرز کے علاوہ، کے لیے ضروری تھا کہ وہ جرمن پاسپورٹ حاصل کرنے سے پہلے اپنی سابقہ شہریت ترک کریں۔
اس قانون نے بہت سے لوگوں کو جرمن شہریت حاصل کرنے سے روک رکھا تھا کیونکہ ان کی اپنے آبائی ملک سے جذباتی، خاندانی اور کاروباری روابط تھے۔ یہ بات جرمنی میں رہنے والے تقریباً 30 لاکھ ترکوں پر بھی صادق آتی تھی۔ترکی میں سیاسی جبر اور آسمان کو چھوتی مہنگائی
ترکی کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال بھی امیگریشن کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔
علاز سمیر کہتے ہیں، ''میں ایک اکیڈمک بننا چاہتا تھا لیکن مجھے یقین نہیں تھا کہ ترکی میں یہ آزادانہ طور پر ممکن ہے۔ جب حالات خراب ہوئے، میں نے ترکی چھوڑ دیا۔‘‘کیچیلی کہتے ہیں کہ وہ ترکی میں '' ایک اچھی زندگی‘‘ نہیں گزار سکتے تھے، ''اگر میں نے جرمنی کے علاوہ کسی اور ملک کا انتخاب کیا ہوتا، تو شاید میں وہاں کی شہریت کے لیے بھی درخواست دیتا۔
‘‘ترکی کا سیاسی ماحول کئی برسوں سے بگڑتا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں باقاعدگی سے حکومت کی طرف سے آزادی رائے اور پریس کی خلاف ورزیوں کی اطلاع دیتی ہیں۔ مارچ میں صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت نے اپنے سب سے مضبوط انتخابی چیلنجر اور استنبول کے میئر امام اوغلو کو گرفتار کیا۔
مزید برآں یہ ملک کئی برسوں سے معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہے۔
سن 2015 میں ایک یورو کی قدر تقریباً 2.3 ترک لیرا کے برابر تھی اور اب یہ تقریباً 46 لیرا کے برابر ہے۔ترکی ہمیشہ 'گھر‘ رہے گا
جرمنی میں انضمام اور برسوں کی زندگی گزارنے کے باوجود، یہاں بہت سے ترک اب بھی اپنی پرانی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں اور ترکی کو اپنا اصل گھر کہتے ہیں۔
علاز سمیر کہتے ہیں، ''جرمنی کبھی میرے لیے گھر نہیں بنا۔
میں خود کو جرمن نہیں کہوں گا۔ لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو جرمن مجھ پر ہنسیں گے اور ٹھیک ہی کریں گے۔‘‘وہ کہتے ہیں کہ وہ جرمنی میں زندگی سے ''زیادہ لطف اندوز‘‘ ہوتے ہیں لیکن تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں واقعی یہاں کا ہونے کا احساس نہیں ہوتا، ''میں نہیں سمجھتا کہ جرمن پاسپورٹ ملنے سے آپ فوری طور پر معاشرے میں قبول کر لیے جاتے ہیں، میرے ساتھ تو یقیناً ایسا نہیں تھا۔
‘‘وہ پھر ان تجربات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو دوسرے تارکین وطن کے ساتھ ملتے جلتے ہیں: ''میرے لیے واضح ہے کہ میں صرف کاغذ پر جرمن ہوں۔ یہاں تک کہ اگر آپ جرمن معیار کے مطابق ڈھل بھی جائیں اور رہیں، آپ پھر بھی ہمیشہ ایک تارک وطن ہی رہتے ہیں۔‘‘
وہ جرمنی میں روزمرہ کے امتیازی سلوک کے لمحات کو یاد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے شہریت ملنے کے بعد اپارٹمنٹ تلاش کیا تو ان کے اصلی نام سے آن لائن درخواستوں کا کوئی جواب نہیں آیا۔ جب انہوں نے جعلی نام استعمال کیا تو یہ رویہ بدل گیا، ''اگر آپ کا نام جرمن نہیں ہے تو جرمن پاسپورٹ بھی آپ کے زیادہ زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘
ادارت: افسر اعوان