امریکا میں ویزا کریک ڈاؤن، پاکستانی طلبہ اور دیگر افراد غیر یقینی صورتحال کا شکار
اب عدالتیں ٹریفک خلاف ورزیوں کا ریکارڈ ڈی ایچ ایس کیساتھ شیئر کرنے کی پابند ہیں
ہفتہ 23 اگست 2025 20:25
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اگست2025ء)امریکی ویزے پر مقیم پاکستانی طلبہ اور دیگر افراد بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں، کیونکہ اب معمولی خلاف ورزی، سیاسی سرگرمی یا نامکمل دستاویزات بھی ان کے قیام کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حالیہ کیسز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور کیمپس میں ہونے والے احتجاج کی اطلاعات امریکی محکمہ برائے ہوم لینڈ سیکیورٹی (ڈی ایچ ایس) کو دی جا سکتی ہیں، جس نے پاکستانی کمیونٹی کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے،شمالی ورجینیا میں 2 پاکستانی طلبہ اٴْس وقت حیران رہ گئے جب ٹریفک کورٹ کے جج نے انہیں بتایا کہ اب عدالتیں ٹریفک خلاف ورزیوں کا ریکارڈ ڈی ایچ ایس کے ساتھ شیئر کرنے کی پابند ہیں۔
(جاری ہے)
بالٹی مور میری لینڈ سے تعلق رکھنے والے طالب علم یونس خان نے کہا کہ ہم شکاگو جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے، لیکن ہمیں مشورہ دیا گیا ہے کہ ایسا نہ کریں، ہم ویزے پر ہیں اور معمولی غلطی بھی ویزے کی منسوخی کا سبب بن سکتی ہے۔امریکا مخالف یا انتہا پسندی پر مبنی مواد کے لیے سوشل میڈیا کی بھی جانچ ہو رہی ہے، پاکستانی سفارت خانہ کہتا ہے کہ وہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں احتیاط کا مشورہ دیتا ہے۔فلسطینیوں کے حق میں احتجاج میں شریک طلبہ مزید پریشان ہیں، بالٹی مور کی ثمینہ علی نے کہا کہ ہم میں سے کچھ ان مظاہروں میں شامل ہوئے تھے اور اب نہیں جانتے کہ رہ سکیں گے یا ملک بدر کر دیے جائیں گے۔ جارج میسن یونیورسٹی کے محمد ساجد نے کہا کہ زیادہ تر طلبہ ٹیوشن فیس کے لیے پارٹ ٹائم کام کرتے ہیں، اب ہمیں نہیں معلوم کہ کام جاری رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔شمالی ورجینیا کے ایک کمیونٹی کالج کے طالب علم خالد نے کہا کہ تقریباً سبھی غیر ملکی طلبہ خوفزدہ ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ کام کرسکتے ہیں، گاڑی چلا سکتے ہیں یا باہر جا سکتے ہیں، یہ وہ امریکا نہیں جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا۔سیاسی پناہ کے تحت رہنے والے پاکستانی اس سے بھی زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں۔واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے مطابق امریکا میں 7 سے 10 لاکھ کے درمیان پاکستانی رہائش پذیر ہیں، جن میں سے زیادہ تر شہری یا طویل المدتی رہائشی ہیں، بہت سے لوگ باضابطہ رجسٹریشن نہیں کرواتے، اس لیے درست تعداد واضح نہیں۔انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کی اوپن ڈورز رپورٹ کے مطابق 2024 میں امریکا میں 11 لاکھ 26 ہزار 690 بین الاقوامی طلبہ موجود تھے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ ہیں۔پاکستان نے 2024 میں 10 ہزار 988 طلبہ بھیجے، جب کہ بنگلہ دیش سے 17 ہزار 99 اور نیپال سے 16 ہزار 742 طلبہ آئے، بھارت 3 لاکھ 31 ہزار 602 طلبہ کے ساتھ سب سے آگے رہا۔پاکستانی سفارتخانے کا اندازہ ہے کہ 2025 میں پاکستانی طلبہ کی تعداد تقریباً 12 ہزار 500 ہو گئی ہے، جو اب بھی دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک سے کم ہے۔وسیع تر چھان بین کے حصے کے طور پر امریکی حکام سوشل میڈیا سرگرمیوں کا جائزہ لے رہے ہیں، تاکہ امریکا کے شہریوں، ثقافت، حکومت یا اداروں کے خلاف کسی بھی قسم کی دشمنی کے آثار سامنے آسکیں۔حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایسے افراد پر نظر رکھیں جو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہوں، یا یہود مخالف ہراسانی یا تشدد میں ملوث ہوں۔امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز کے ترجمان میتھیو ٹریگیسر نے کہا کہ امریکا کی سہولتیں ان لوگوں کو نہیں دی جانی چاہئیں جو اس ملک سے نفرت کرتے ہیں اور مخالف نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔اس کے علاوہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ٹرک ڈرائیوروں کے ورک ویزے کے اجرا پر پابندی لگانے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ امریکی روزگار اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ملاوی اور زیمبیا سے آنے والے ویزا ہولڈرز پر اب سیاحتی یا کاروباری ویزے کیلئے 15 ہزار ڈالر کی ضمانت لازمی قرار دی گئی ہے، جب کہ 12 ممالک پر سفری پابندیاں اور مزید 7 ممالک پر جزوی پابندیاں برقرار ہیں،یہ کریک ڈاؤن پاکستانی طلبہ اور ویزا ہولڈرز کو اپنے مستقبل کے حوالے سے مزید پریشان کر رہا ہے۔واشنگٹن میں پاکستانی حکام کو طلبہ اور دیگر ویزا ہولڈرز کی جانب سے مسلسل سوالات موصول ہو رہے ہیں، جنہیں امریکی محکمہ خارجہ کو بھیجا جا رہا ہے۔سفارتخانے کے حکام صورت حال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور قانونی دستاویزات، حقوق سے آگاہی اور سیاسی سرگرمیوں میں احتیاط کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں
۔