اسرائیل رعائتیں دینے کو تیار معاہدے سے نصف قیدیوں کی واپسی ممکن

ٹرمپ انتظامیہ اور قطری ثالث پرامید ہیں کہ کسی معاہدے تک پہنچا جا سکتا ہے، اسرائیلی عہدیدار

منگل 1 جولائی 2025 16:16

تل ابیب (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جولائی2025ء)اسرائیل نے اپنے بعض موقف نرم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے تاکہ اس کے قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی میں فائر بندی سے متعلق ایسے معاہدے کی صورت نکل سکے جو حماس کے لیے قابل قبول ہو۔ تاہم اسرائیل نے پہلے سے اس بات پر آمادگی ظاہر کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ یہ وقتی فائر بندی جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گی۔

میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات ایک اعلی اسرائیلی عہدے دار نے بتائی۔اسرائیلی حکام کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور قطری ثالثی اس امکان کے حوالے سے پرامید ہیں کہ کسی معاہدے تک پہنچا جا سکتا ہے، لیکن اسرائیل ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس امید کی بنیاد کیا ہے۔ ادھر اخبار نے با خبر ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ روز ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں متعدد وزرا نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں جنگ کے مقاصد ابھی تک حاصل نہیں ہوئے، اس لیے عسکری اور سیاسی دبا جاری رکھنا ضروری ہے۔

(جاری ہے)

اجلاس کے دوران اسرائیلی فوج کے سربراہ نے ایک تخمینہ پیش کیا جس کے مطابق لڑائی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے، اور یہی بات آئندہ مرحلے کے بارے میں اہم مباحثے کے دروازے کھول رہی ہے۔اخبار نے مزید بتایا کہ کابینہ کا ایک نیا اجلاس جمعرات کو ہو گا، جس میں غزہ میں جنگ کے راستے سے متعلق حتمی فیصلے متوقع ہیں، جن میں زمینی اور سیاسی اقدامات شامل ہوں گے۔

اخبار کے مطابق، سیاسی سطح پر یہ ارادہ ہے کہ حماس کے جنگجوں پر مکمل محاصرہ مسلط کیا جائے تاکہ وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوں، اس کے ساتھ ساتھ غزہ ہیومینیٹرین فانڈیشن کی نگرانی میں اضافی امدادی مراکز قائم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے تاکہ امداد کی تقسیم کا دائرہ وسیع کیا جا سکے۔جہاں تک مذاکراتی راستے کا تعلق ہے، اخبار نے بتایا کہ غزہ میں فائر بندی کے لیے ایک عارضی معاہدے تک پہنچنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ممکن ہے کہ غزہ میں قید تقریبا نصف اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔