پاکستان کے قانون میں ٹیکس فراڈپر سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں،چوہدری صبیح عباس ایڈووکیٹ

جمعرات 3 جولائی 2025 16:52

سیالکوٹ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 جولائی2025ء) سیالکوٹ ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے انفارمیشن سیکرٹری چوہدری صبیح عباس ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ ٹیکس فراڈ ایک سنگین جرم ہے، اور پاکستان کے قوانین میں اس پر سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں، خاص طور پر سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 (ترمیم شدہ فنانس ایکٹ 2025 کے تحت) اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے مطابق ٹیکس فراڈ ایک دانستہ، بدنیتی پر مبنی اور قصدی عمل ہوتا ہے، جیسے کہ جعلی انوائسز بنانا،غلط ریٹرن دینا،فیک لین دین دکھا کر ان پٹ ٹیکس کریڈٹ لینااورٹیکس جمع نہ کروانایہ جرم بددیانتی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے اسے معمولی غلطی نہیں سمجھا جاتا۔

جمعرات کو اپنے دفتر میں سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 (سیکشن 33، 37 کے تحت)اگر کسی شخص پر ٹیکس فراڈ ثابت ہو جائے توفراڈ کا ارتکاب یا معاونت پرجرمانہ اور3سے 5 سال تک قید،جعلی انوائس / ریکارڈپرجرمانہ اور 3 سے 5 سال تک قید،ضبطی کے مستحق مال کی منتقلی پر ضبط ، قید اور ٹیکس واجب الادا جبکہ ریپیٹ فراڈ (دوبارہ جرم) زیادہ سخت سزا اور کاروبار کی بندش جیسی سزائیں ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 (سیکشن 192، 192B، 114B)کے تحت اگر جان بوجھ کر جھوٹا ریٹرن جمع کروایا جائے یا آمدن چھپائی جائےتو 1 سے 5 سال تک قیداور آمدن یا ٹیکس کی رقم کا 100% تک جرمانہ اورآمدن کی از سر نو تشخیص اور دوبارہ آڈٹ ہو گا۔فیڈرل بورڈ آف رینیوکوٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کے خلاف گرفتاری کے اختیارات حاصل ہیں جبکہ بعض کیسز میں نادرابلاکنگ، پاسپورٹاور نیشنل ٹیکس نمبر معطلی، اور بینک اکاؤنٹس منجمد بھی کیے جا سکتے ہیں۔

عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، اور ضمانت آسانی سے نہیں ملتی۔انہوں نے مزید بتایا کہ ٹیکس فراڈ صرف مالی جرم نہیں بلکہ معاشی بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔یہ جرم نہ صرف آپ کی کاروباری ساکھ تباہ کر سکتا ہے بلکہ قانونی گرفتاری اور قید کا باعث بھی بن سکتا ہے۔