لوگوں کی جان بچانے کیلئے بے گھر کرنا پڑا گا تو کردیں گے ، کوئی متبادل جگہوں پر منتقل کردیا جائے گا،وزیربلدیات سندھ

کراچی میں 588 عمارتوں کو خطرناک قرار دیا جاچکا ہے، جس میں سے ڈسٹرکٹ ساتھ میں 456 اور صرف لیاری کوارٹرز میں 107 مخدوس عمارتیں ہیں،سعید غنی بحثیت قوم اور معاشرہ اس سانحہ کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ اس سانحہ کی اعلی سطحی تحقیقات کے لئے اسپیشل سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جو اس سانحہ کے محرکات، اسباب اور ذمہ داران کا تعینات کرکے آئندہ تین کاموں کے دنوں میں اپنی رپورٹ جمع کروائے گی،میڈیا سے گفتگو

جمعہ 4 جولائی 2025 22:45

5کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 جولائی2025ء)وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ لوگوں کی جان بچانے کے لئے اگر ان کو بے گھر کرنا پڑے گا تو ہم کردیں گے اور ان کو کوئی متبادل جگہوں پر منتقل کردیا جائے گا۔ کراچی میں 588 عمارتوں کو خطرناک قرار دیا جاچکا ہے، جس میں سے ڈسٹرکٹ ساتھ میں 456 اور صرف لیاری کوارٹرز میں 107 مخدوس عمارتیں ہیں۔

بحثیت قوم اور معاشرہ اس سانحہ کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ اس سانحہ کی اعلی سطحی تحقیقات کے لئے اسپیشل سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جو اس سانحہ کے محرکات، اسباب اور ذمہ داران کا تعینات کرکے آئندہ تین کاموں کے دنوں میں اپنی رپورٹ جمع کروائے گی۔ اس سانحہ کے بعد ایس بی سی اے کے اس علاقہ کے ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر، بلڈنگ انسپکٹرز و دیگر کو بھی معطل کردیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کی شام اپنے دفتر میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر کمشنر کراچی حسن نقوی ڈی جی ایس بی سی اے اسحاق کھوڑو، ڈپٹی کمشنر سائوتھ جاوید لطیف کھوسو اور دیگر بھی ان کے ہمرا موجود تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ لیاری کے علاقہ بغدادی میں گرنے والی عمارت کو پہلے ہی انتہائی خطرناک عمارت قرار دیا جاچکا تھا اور یہاں کے مکینوں کو 2 جون 2023 کو پہلا نوٹس جبکہ اس کے بار مزید چار نوٹسز 28 فروری 2024، 30 مئی 2024، 25 جون 2024 اور آخری نوٹس ایک ماہ قبل 2 جون 2025 کو دیا گیا تھا اور اس عمارت کو خالی کروانے کے لئے عملہ وہاں گیا تو وہاں کے مکینوں نے ان سے نہ صرف جھگڑا کیا بلکہ ان سے ہاتھا پائی تک کی گئی۔

سعید غنی نے کہا کہ مذکورہ عمارت کا سروے 10 اکتوبر 2022 کو ہوا تھا جس میں اس عمارت کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر دینا کہ سندھ حکومت یا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے کسی قسم کے نوٹسز جاری نہیں ہوئے یہ سراسر غلط ہے۔ اور اس وقت بھی شہر کی 588 ایسی عمارتیں ہیں جن کو خطرناک ہونے پر مسلسل نوٹسز جاری کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صرف لیاری کوارٹرز میں 107 میں سے 51 عمارتیں خطرناک جبکہ 22 انتہائی خطرناک قرار دی گئی عمارتوں میں سے یہ ایک عمارت تھی جبکہ 22 میں سے 14 عمارتوں کو گرا بھی دیا گیا ہے لیکن اس عمارت سمیت 8 عمارتوں کے مکینوں کی جانب سے ایس بی سی اے اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ کو ہمیشہ سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ سعید غنی نے کہا کہ آج کے اس افسوس ناک سانحہ میں آخری اطلاع تک 7 افراد جاں بحق جبکہ 9 زخمی ہوئے ہیں جبکہ آپریشن ابھی بھی جاری ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ مزید افراد اس ملبہ تلے دبے ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن 24 گھنٹے تک جاری رکھا جائے گا اور اس کے لئے تمام مشینری، جنریٹرز اور لائٹس کا انتظام بھی کردیا گیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ اگر خدانخواستہ اس ملبہ تلے کوئی دبا ہوا ہے تو اس کی زندگی کو بچایا جاسکے۔ سعید غنی نے کہا کہ کراچی کی 588 میں سے صرف 456 خطرناک عمارتیں ڈسٹرکٹ سائوتھ میں ہیں کیونکہ یہ اولڈ سٹی ایریا ہے اور یہاں پر ماضی میں غیر قانونی عمارتیں بھی بہت ہی بنائی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لیاری کوارٹرز کی 51 خطرناک عمارتوں کو ان کے مکینوں سے خالی کروانے کے لئے جب بھی کوئی آپریشن کیا جاتا ہے تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر حکومت اور اداروں کے خلاف منفی پروپگنڈہ شروع کردیا جاتا ہے۔ لیکن اب حکومت اور انتظامیہ نے تہیہ کرلیا ہے کہ لوگوں کی جان بچانے کے لئے اگر ان کو بے گھر کرنا پڑے گا تو ہم کردیں گے اور ان کو کوئی متبادل جگہوں پر منتقل کردیا جائے گا۔

سعید غنی نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل اس طرح کی عمارتوں کو خالی کروانے کے حوالے سے چیف سیکرٹری سندھ اور کمیشنر کراچی کی جانب سے کئی اجلاس بھی ہوئے لیکن قانونی پیچیدگیوں کے باعث شدید مشکلات کا ہمیں سامنا ہے کیونکہ اولڈ سٹی ایریا میں زیادہ تر عمارتیں پگڑی سسٹم پر یا پھر ایک عمارت میں کئی کئی فلیٹس ہیں اور یہ سب مالکانہ حقوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی عمارتوں کو اگر جبری طور پر خالی کروایا جاتا ہے تو اس کو سیاسی اشیو بھی بنا دیا جاتا ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس طرح گھروں کو خالی کرنا اس گھر والے کے لئے بھی ایک مشکل عمل ہے لیکن جان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا یہ ان کو بھی سمجھنا ہوگا۔ اس لئے میں میڈیا کے توسط سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اس طرح کی عمارتوں میں نہ رہیں اور انہیں خالی کردیں ہم اس عمارت کے مکینوں، حکومت، بلڈرز اور مالکان ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن سب مل کر ان کے مسائل کو حل کروانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

سعید غنی نے کہا کہ ہم شہر میں غیر قانونی تعمیرات کے عذاب کو روکنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ادارے اس میں ملوث ہوتے ہیں لیکن کہی کہی اس کے خریدار بھی اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تک غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بلڈرز کے خلاف بدقسمتی سے کوئی کرمنل اور کوئی سخت کارروائی نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے قانون میں اس حوالے سے ترامیم کی سخت ضرورت ہے اور ہم اس ترامیم پر بھی کام۔

کررہے ہیں اور جلد ہی اسمبلی سے اس قانون کو منظور کروایا جائے گا گوکہ ہمیں اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ ان سخت قوانین سے ہمیں مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور اس میں آباد سمیت خریداروں اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے خلاف بھی کارروائی ہوسکے گی جو اس طرح کی غیر قانونی عمارتوں کو بنانے، ان کو فروخت کرنے اور خریدنے میں ملوث ہوں گے۔ سعید غنی نے کہا کہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ محکمہ بلدیات یا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی غیر قانونی عمارتوں کے خلاف کارروائیاں نہیں کررہی ہے، گذشتہ چند ماہ کے دوران جتنے بڑے پیمانے پر غیر قانونی عمارتوں کو توڑا گیا ہے، اس میں ملوث افسران کو معطل یا شہر بدر کیا گیا ہے اور ایف آئی آر کا اندراج تک کروایا گیا ہے اور بلڈرز کے خلاف بھی ایف آئی آر کا اندراج کرایا گیا ہے ساتھ پہلے اس طرح کی غیر قانونی عمارتوں کو صرف ایس بی سی اے ہی توڑنے کا مجاز تھا اور یہ بھی تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اپنا کام پوری ایمانداری سے نہیں کرتے تھے اس لئے ہم۔

نے اب یہ اختیار ڈپٹی کمیشنر اور ٹائونز کو بھی دے دیا ہے کہ وہ اگر غیر قانونی عمارت ان کے علاقہ میں تعمیر ہورہی ہے تو اس کو توڑ دیں۔ ایک سوال پر سعید غنی نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات کو توڑنے کی اصل ذمہ داری ایس بی سی اے کی ہے اور اگر وہ یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو بالکل وہ بھی ذمہ دار ہیں اور میں نے کبھی ان کا نہ دفاع کیا ہے اور نہ ہی کسی غلط کام کا دفاع کروں گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ حکومت کے پاس وسائل محدود ہوتے ہیں اور وہ ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی عمارتوں میں رہائش پذیر لاکھوں افراد کو متبادل رہائش کیسے فراہم کرسکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اس عمارت سمیت تمام خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کے لئے کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ اور سوئی گیس کو ان کی یوٹیلیٹی منقطع کرنے کے لئے خطوط لکھے ہیں لیکن وہ بھی نہیں کررہے ہیں جبکہ ان تمام یوٹیلیٹی فراہم کرنے والوں کو پابند بھی کیا گیا ہے کہ جو عمارتیں غیر قانونی ہیں انہیں کسی قسم کی کوئی یوٹیلیٹی فراہم نہ کی جائے بلکہ جو قانونی عمارتیں بھی ہیں ان کی بھی جب تک مکمل ہونے کی این او سی ان کو نہ ملے تو ان کو بھی فراہم نہ کیا جائے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں کے الیکٹرک اور سوئی گیس والے بھی غیر قانونی عمارتوں کو یہ یوٹیلیٹی فراہم کردیتے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ بحثیت قوم اور معاشرہ اس سانحہ کے ذمہ دار ہم سب ہیں گوکہ اس کی بنیادی ذمہ داری ایس بی سی اے کی ہے لیکن انہوں نے 2 سال کے دوران 5 مرتبہ ان کو نوٹسز جاری کئے، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن نے بھی ان کو خالی کروانے کی کوشش کی۔ یوٹیلیٹی فراہم کرنے والوں کو بھی خط لکھے گئے لیکن افسوس کہ وہاں کے مکینوں اور سب نے اس ہر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اس طرح کا سانحہ رونما ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس پورے سانحہ کی تحقیقات کے لئے اسپیشل سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو آئندہ 3 کام کے دنوں میں اس کے اسباب اور زمہ داران کا تعین کرے گی جبکہ فوری طور پر اس ڈسٹرکٹ کے ایس بی سی اے کے ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر اور بلڈنگ انسپکٹرز سمیت سب کو معطل۔کردیا گیا ہے۔