پاکستان: خواتین کی سوشل میڈیا پر شہرت، اصل قیمت کہیں زیادہ

DW ڈی ڈبلیو اتوار 6 جولائی 2025 12:40

پاکستان: خواتین کی سوشل میڈیا پر شہرت، اصل قیمت کہیں زیادہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جولائی 2025ء) پاکستان میں رواں ماہ ایک 17 سالہ ٹک ٹاک اسٹار ثنا یوسفکو ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا، جو ان سے بارہا آن لائن رابطے کے لیے کہہ رہا تھا۔

ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر 10 لاکھ سے زائد فالوورز رکھنے والی اس مقبولپاکستانی نوجوان لڑکی کے قتل نے پاکستان میں آن لائن شخصیات، خاص طور پر نوجوان خواتین کی سکیورٹی سے متعلق خدشات کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔

اس موضوع پر ڈی ڈبلیو نے مختلف پاکستانی سوشل میڈیا اسٹارز سے گفتگو کی تاکہ حقائق تک پہنچا جا سکے۔ اس مضمون میں خواتین کے تحفظ کے لیے ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

پاکستانی سوشل میڈیا صارف حرا زینب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے برگر شاپ پر ایک اسٹوری پوسٹ کی۔

(جاری ہے)

واپسی پر ایک گاڑی گزری اور کسی نے میرا نام پکارا۔‘‘

زینب 2017 سے انسٹاگرام پر سرگرم ہیں اور کئی اکاؤنٹس چلاتی ہیں، جن میں ایک فوڈ بلاگ اور سماجی امور سے متعلق کالم بھی شامل ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب اس آن لائن تعاقب نے ان کی حقیقی زندگی کا رخ بھی کیا ہو۔

’’ایک بار میں سیلون میں تھی اور وہاں سے نکلنے کے بعد ایک میسج آیا، یہ کلر تم پر اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
زینب کا کہنا ہے کہ دونوں بار یہ پیغامات ایسے افراد کی جانب سے آئے جن کی آن لائن کوششوں کو وہ نظر انداز کر چکی تھیں۔

کیا اس کی جڑیں پاکستانی معاشرے کی پدرشاہی سوچ میں ہیں؟

حال ہی میں سوشل میڈیا اسٹار مریم فیصل کی ایک مبینہ نجی ویڈیو لیک ہونے جیسے واقعات نے پاکستان میںخواتین کی ڈیجیٹل سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل اسپیس میں اظہار رائے کی آزادی اور معاشی خودمختاری کے ساتھ ساتھ دھمکیوں، پرائیویسی کی خلاف ورزیوں اور سماجی دباؤ کا ایک طوفان آتا ہے، جو اکثر آف لائن یا حقیقی دنیا میں تشدد میں بدل جاتا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آن لائن ہراسانی کی 58.5 فیصد شکایات خواتین کی جانب سے درج کرائی جاتی ہیں۔

لیکن عوامی سطح پر اس مسئلے کی گہرائی اور آن لائن دنیا سے گھروں، دفاتر بلکہ پورے سماج میں پھیلے پدرشاہی نظام پر کم ہی بات ہوتی ہے۔

نفرت انگیز تبصرے اور ریپ کی دھمکیاں

ڈی ڈبلیو نے پاکستان کی کئی ایسی خواتین سے بات کی جو سوشل میڈیا کو عوامی سطح پر استعمال کرتی ہیں۔

پاکستانی شاعرہ یسریٰ امجد نے 2017 سے انسٹاگرام کو عوامی طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔

''شاعری سے آغاز ہوا اور پھر یہ مواد تخلیق کرنے اور تعاون کے مواقع میں بدل گیا۔‘‘

وہ کہتی ہیں، '' سب سے شاندار بات یہ ہوئی کہ برطانوی شاعرہ یرسا ڈیلی وارڈ نے انسٹاگرام کمنٹس سے کسی کو ویڈیو کال کے لیے چُنا، اور وہ میں تھی۔

لیکن یسریٰ امجد کے کانٹینٹ پر نفرت انگیز تبصرے بھی مسلسل ہوتے رہے۔ ''جب میں نے اپنی والدہ کے ہمراہ ایک پارک میں یوگا کیا، تو ویڈیو پر تبصروں میں اسے بے حیائی اور عزت کے خلاف قرار دیا گیا۔

‘‘

خواتین کو پدرشاہی، خاندانی اور ثقافتی اقدار کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے

کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی بسمہ شکیل سوشل میڈیا کے ذریعے ذہنی صحت، خصوصاً تعلقات اور گھریلو تشدد سے متعلق آگاہی دیتی ہیں۔

انہیں یہ تحریک ایک زہریلے تعلق سے باہر نکلنے کے ذاتی تجربے سے ملی، جہاں ان کا پارٹنر ان پر کنٹرول رکھتا تھا اور انہیں سوشل میڈیا استعمال کرنے سے روکتا تھا۔

لیکن ان کے لیے یہ سفر آسان نہ تھا۔ چہرہ دکھاتے ہوئے ویڈیو پوسٹ کرنے کی اجازت خاندان سے لینا وقت طلب مرحلہ تھا۔

’’میرے والد آزاد خیال ہیں لیکن انہوں نے بھی کہا، پوسٹ مت کرو، لوگ باتیں کریں گے، ہماری کمیونٹی کی لڑکیاں ایسا نہیں کرتیں۔‘‘

اگرچہ اب وہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں، مگر وہ کہتی ہیں کہ یہ خطرے سے خالی نہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''انسٹاگرام پر تو کچھ حد تک بہتر ہے، لیکن ٹک ٹاک پر آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ہمیں کس قسم کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ ریپ کی دھمکیاں، جان سے مارنے کی دھمکیاں۔‘‘

ادارت: شکور رحیم