اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جولائی 2025ء) اس تین سالہ فلسطینی بچے کا باپ اپنی اہلیہ کی موت کا غم برداشت نہ کر سکا اور وہ بھی تقریباﹰ مفلوج ہو چکا ہے۔ اب عمرو ہسپتال کے بستر پر پڑا ہے، نہ بول پاتا ہے، نہ حرکت کر پاتا ہے اور اس کا وزن بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ ڈاکٹروں کے پاس اس کے دماغی نقصان کے علاج یا بحالی کے لیے ضروری وسائل نہیں کیونکہ مسلسل بمباری اور ناکہ بندی نے غزہ پٹی کے نظام صحت کو تہس نہس کر دیا ہے۔
ہسپتال میں تکلیف دہ لمحات
حال ہی میں ناصر ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ سے منتقل ہونے کے بعد عمرو کا کمزور جسم واضح طور پر تکلیف میں ہے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں کمرے میں اِدھر اُدھر گھومتی ہیں اور اس کی خالہ نور الحمص کو یقین ہے کہ وہ اپنی ماں کو ڈھونڈتا ہے، ''یہ بول نہیں سکتا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ 'ماں‘ کہنے کی کوشش کرتا ہے۔
(جاری ہے)
نور الحمص خان یونس کے ناصر ہسپتال میں عمرو کی بنیادی نگہداشت کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں جتنا ہو سکتا ہے، کوشش کر رہی ہوں لیکن یہ سب بہت مشکل ہے۔‘‘
نور کبھی عمرو کو تسلی دینے کے لیے کہتی ہیں کہ اس کی ماں جلد واپس آ جائے گی، تو کبھی اس کا دھیان بٹانے کے لیے ایک چھوٹا سا گیند تھما دیتی ہیں۔ لیکن جنگ نے صحت عامہ کے نظام کو اس قدر تباہ کر دیا ہے کہ عمرو کی طبی ضروریات پورا کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
غزہ کا نظام صحت تباہ ہو چکا ہے
سات اکتوبر 2023 کو حماس کی قیادت میں عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملہ کیا، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا۔ غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی میں 57 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
تقریباً 21 ماہ سے جاری اس تنازعے نے غزہ کی 2.3 ملین کی آبادی کے بہت بڑے حصے کو بے گھر کر دیا ہے جبکہ صحت عامہ کا نظام بھی مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ غزہ پٹی کے 36 ہسپتالوں میں سے نصف سے زیادہ مکمل طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں۔ باقی ماندہ ہسپتال ایندھن، ادویات اور طبی آلات کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ روزانہ کی بمباری اور حملوں نے ان باقی ماندہ طبی علاج گاہوں میں بھی رش بڑھا دیا ہے، جو جزوی طور پر کام کر رہی ہیں۔
ان علاج گاہوں کو بھی ایندھن، پٹیوں اور ٹانکوں کے لیے استعمال ہونے والے دھاگوں سے لے کر سانس لینے میں مدد دینے والے آلات اور سکینرز تک ہر چیز کی کمی کا سامنا ہے۔اسرائیل نے دو ماہ سے زائد عرصے تک غزہ میں خوراک، ادویات اور دیگر امداد کی ترسیل روکے رکھی۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس اس امداد کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے تاہم اقوام متحدہ کے ادارے بار بار اس اسرائیلی دعوے کی تردید کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ پٹی کی آبادی اس وقت قحط کے دہانے پر کھڑی ہے۔اسرائیل نے مئی سے غزہ کے لیے محدود امداد کی اجازت دے رکھی ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔ غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق جنگ میں تقریبا 33 ہزار بچے زخمی ہوئے، جن میں سے 5,000 کو طویل المدتی علاج کی ضرورت ہے۔ عمرو جیسے ایک ہزار سے زائد بچوں کو دماغ یا ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں یا پھر ان کے جسمانی اعضاء کاٹ دیے جانے کی صورتحال کا سامنا ہے۔
ماہر امراض اطفال تانیہ حاج حسن بین الاقوامی طبی تنظیموں کے ساتھ غزہ پٹی میں کئی بار رضاکارانہ طور پر کام کر چکی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ''غزہ میں مستقبل کی نسلوں کو ایسے بچوں کے ساتھ نمٹنا پڑے گا، جو ہر قسم کی معذوریوں کے ساتھ زندگی گزاریں گے، نہ صرف دماغی بلکہ جسمانی اعضاء کی معذوریاں بھی۔ صحت کے نظام پر دباؤ نہ ہونے اور ہسپتالوں کے منظم طور پر نشانہ نہ بنائے جانے سے اس صورت حال سے بچا جا سکتا تھا۔
‘‘ایک فیصلہ کن سفر اور تباہی
اپریل میں عمرو کی ماں انس نے اپنی متوقع زچگی سے ایک ہفتہ قبل اپنے شوہر محمد کو شمالی غزہ میں اپنے والدین سے ملنے کے لیے راضی کیا۔ وہ اپنے خیمے سے پیدل روانہ ہوئے۔ رات کے کھانے کے دوران ایک حملے میں حاملہ انس، اس کے والدین اور عمرو کے بہن بھائی ہلاک ہو گئے۔ عمرو کو شمالی غزہ کے انڈونیشی ہسپتال کے آئی سی یو میں لے جایا گیا، جہاں اسکین سے دماغ میں بارودی ٹکڑوں کی موجودگی اور دماغی کارکردگی میں کمی کی تصدیق ہو گئی۔
عمرو کی خالہ سوال کرتی ہیں، ''یہ صرف تین سال کا ہے۔ اسے راکٹ کا بوجھ کیوں اٹھانا پڑ رہا ہے؟‘‘
اس کا باپ محمد صدمے کی حالت میں آئی سی یو میں اسے دیکھنے بھی نہ جا سکا۔ خالہ نے بتایا کہ محمد کی بیوی اس کی بچپن کی محبت تھی۔ لیکن محمد اب مشکل سے ہی بول پاتا ہے۔
ایک اور خطرناک سفر
لیکن جب وہ ہسپتال میں تھا تو اسرائیلی فورسز نے اس علاج گاہ پر بھی حملہ کیا، اس کے احاطے کا محاصرہ کیا، اس کے مواصلاتی ٹاورز، پانی کی فراہمی اور ایک وارڈ کو نقصان پہنچایا۔
پھر اس علاقے کے لیے بھی انخلا کے احکامات جاری ہوئے اور مریضوں کو غزہ شہر کے شفاء ہسپتال منتقل کیا گیا۔ لیکن شفاء ہسپتال بڑے پیمانے پر زخمیوں سے بھرا ہوا تھا اور عملے نے اس خاندان کو عمرو کو جنوبی غزہ پٹی کے ناصر ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا۔
عمرو کو، جو ابھی آئی سی یو سے نکلا ہی تھا اور اس کے گلے میں نالی تھی، ایک رکشہ پر 25 کلومیٹر کے خطرناک سفر کے بعد ناصر ہسپتال پہنچایا گیا۔
ناصر ہسپتال پہنچنے پر عمرو کی آکسیجن کی سطح اتنی کم تھی کہ اسے دوبارہ آئی سی یو میں داخل کرنا پڑا۔ ناصر ہسپتال میں بچوں کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر احمد الفرا نے بتایا کہ نالی کے ذریعے غذائیت فراہم کرنے والا سامان دستیاب نہیں ہے۔ عمرو کو درکار غذائیت سے بھرپور دودھ اسرائیل کی ناکہ بندی کے ہفتوں بعد ہی مارکیٹ اور ہسپتال سے غائب ہو گیا۔
عمرو کا وزن اب آدھا رہ گیا ہے۔ نور راتوں کو اس کے ساتھ لیٹ کر چاول یا دال پیس کر سرنج سے اسے کھلاتی ہیں۔ نور ایک تربیت یافتہ نرس بھی ہیں، وہ کہتی ہیں، ''غزہ میں قحط ہے۔ کھانے کو کچھ نہیں ہے، کچھ بھی باقی نہیں بچا۔‘‘مستقبل کی امید
دماغی چوٹوں کے لیے فوری اور طویل المدتی نگہداشت بہت ضروری ہے لیکن غزہ میں یہ ممکن نہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق مارچ سے 317 مریض، جن میں 216 بچے بھی شامل ہیں، علاج کے لیے غزہ سے نکالے گئے، جبکہ 10 ہزار سے زائد، جن میں سے 2,500 بچے ہیں، ابھی تک انخلا کے منتظر ہیں۔ عمرو بھی انہی میں سے ایک ہے۔
نور کہتی ہیں کہ عمرو ایک ذہین بچہ تھا لیکن اب اس پر ترس آتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے ڈائپرز سے ناخوش ہے، جو اب اس کے لیے چھوٹے ہیں اور اسے دورے پڑنے کی وجہ سے سکون آور ادویات دی جاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کی ترجمان ٹیس انگرام کہتی ہیں کہ غزہ کے زخمی بچوں کی واحد امید بیرون ملک علاج ہے، ''دیگر ممالک کو اپنے اپنے دل، اپنے دروازے اور ہسپتال ان بچوں کے لیے کھولنا چاہییں، جو ناقابل تصور حالات سے گزر رہے ہیں، درد میں تڑپ رہے ہیں۔‘‘
نور کہتی ہیں کہ عمرو جب تک غزہ میں ہے، اس کی صحت یابی ایک خواب ہی رہے گی۔
ادارت: مقبول ملک