
امریکہ کا مشرقِ وسطی میں بڑی تعداد میں فوج موجود رکھنے کا فیصلہ
واشنگٹن کی مشرقِ وسطی سے جزوی انخلا کی تیاری، مگر خطے میں امریکی فوجی موجودگی بدستور اہم اور بڑی رہے گی
پیر 7 جولائی 2025 12:14
(جاری ہے)
یہ کمی ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں کے خطرے میں کمی کے باعث کی جا رہی ہے۔ مذکورہ جنگی بیڑہ دفاعی آپریشنز میں معاون تھا، جبکہ بی 52 بمبار طیاروں کو خطے میں تعینات کرنا اتحادیوں کے لیے اطمینان اور دشمنوں کے لیے وارننگ کا پیغام تھا۔
ایران اور حوثیوں پر حالیہ حملوں کے بعد امریکی حکمت عملی میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کارل وِنسن جلد ہی مشرقِ وسطی سے نکل جائے گا۔ امریکی عہدیدار کے مطابق، ہم جلد ہی ان بحری جہازوں کو بحیر احمر اور نہرِ سویز سے گزرتے دیکھیں گے۔اس کے باوجود، پینٹاگان کی پالیسی یہ ہے کہ مرکزی کمان کے دائرہ کار میں ایک طیارہ بردار جہاز اس کے ہمراہ جنگی بحری جہاز، آبدوزیں اور دیگر یونٹس بدستور تعینات رہیں گے۔ امریکہ خلیج عرب، بحیر احمر اور مشرقی بحیر روم میں بحری اور فضائی قوت برقرار رکھے گا۔امریکی عہدیدار کے مطابق اس وقت خطے میں تقریبا 30 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں، جن میں سے 1500 شام میں ہیں۔ ان کی تعداد کم ہونے کا امکان ہے، مگر سکیورٹی وجوہات کی بنا پر تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔ آئندہ دنوں میں شام میں تعینات امریکی فوجی ایک ہزار سے بھی کم رہ جائیں گے۔اسی طرح عراق میں بھی 2500 امریکی فوجی موجود ہیں، جن کے انخلا کا آغاز جلد متوقع ہے۔ بغداد اور واشنگٹن کے درمیان معاہدے کے تحت ستمبر کے اختتام سے قبل بڑی امریکی افواج وہاں سے واپس چلی جائیں گی، تاہم کردستان میں محدود فوجی موجودگی ایک سال تک برقرار رہے گی۔پینٹاگان میں یہ بحث جاری ہے کہ مشرقِ وسطی میں امریکہ کو کتنی عسکری قوت کی ضرورت ہے۔ حالیہ برسوں میں خطے میں افواج کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی ہے، جبکہ پہلے طیارہ بردار جہاز یا میزائل دفاعی نظام کی ایسی مستقل تعیناتی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ایک امریکی اہلکار کے مطابق خطے میں امریکہ کے پاس وسیع دفاعی اور عسکری صلاحیت موجود ہے، جو خطرات سے نمٹنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کافی ہے۔ ایک اور عہدیدار نے کہاکہ مرکزی کمان کے تحت کم از کم ایک طیارہ بردار جہاز کی تعیناتی برقرار رہے گی۔امریکی حکام کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں فوری خطرہ تو نہیں، تاہم وہ مشرقِ وسطی جیسے غیر متوقع خطے کو مکمل طور پر خالی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ایک اہلکار نے کہاکہ یہ خطہ حیران کن صورتحال سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کسی وقت بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگرچہ دنیا بھر میں امریکی افواج کی تعداد کم کرنے اور چین پر توجہ مرکوز کرنے کے حامی ہیں، تاہم مشرقِ وسطی کی حقیقتیں اس سے مختلف تقاضے کرتی ہیں۔امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل مائیکل ایریک کوریللا کی حکمتِ عملی، جس کے تحت ایران کے ایٹمی تنصیبات پر بی 2 بمبار طیاروں سے حملے اور حوثیوں پر محدود مگر شدید بمباری کی گئی وقتی طور پر کارآمد رہی، مگر اب نظر آ رہا ہے کہ یہ پائیدار حل نہیں ہے۔مزید بین الاقوامی خبریں
-
ایئرانڈیا طیارہ حادثے کی وجوہات سامنے آگئیں، ابتدائی رپورٹ جاری
-
ایران، لڑکی سے زیادتی اور قتل کرنے والے شخص کو سرِعام پھانسی دے دی گئی
-
دبئی ایئرپورٹ پر معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر کی گرفتاری
-
پلاسٹک کے فضلے سے پیراسیٹامول تیار کی جاسکتی ہے، نئی تحقیق
-
افغان ٹیکسی ڈرائیوروں نے گرمی سے بچنے کیلئے انوکھا حل نکال لیا
-
ڈونلڈ ٹرمپ کا طوفان سے متاثرہ ٹیکساس کا ایک ہفتے بعد دورہ
-
برطانیہ، امام جلال الدین قتل کیس میں پولیس کی سنگین غلطی کاانکشاف
-
غزہ میں پانچ فوجیوں کی ہلاکت پر اظہار مسرت کرنے والا اسرائیلی صحافی گرفتار
-
غسل کیلئے خانہ کعبہ کی سیڑھی مقدس ترین جگہ کے لیے احتیاط کی علامت
-
قطر میں امریکی فوجی اڈے پر ایرانی حملے میں جیو ڈیسک گنبد نشانہ بنا،سیٹلائٹ تصاویر
-
تیسری میڈ اِن سعودیہ نمائش کا انعقاد دسمبر میں ریاض میں ہو گا
-
امریکہ یوکرین کے لیے اپنے نیٹو اتحادیوں کو ہتھیار فروخت کرے گا، ٹرمپ
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.