برطانیہ کا خفیہ منصوبہ،33ہزار افغان باشندوں کی خاموش منتقلی کی تیاری

فوجی معاونین کی زندگی خطرے میں، ڈیٹا لیک سے طالبان کو حساس معلومات پہنچنے کا اندیشہ

بدھ 16 جولائی 2025 11:00

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جولائی2025ء)برطانوی حکومت ایک خفیہ منصوبے کے تحت افغانستان سے 33 ہزار افغان شہریوں کو برطانوی سرزمین پر منتقل کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ان افراد نے ماضی میں برطانوی اور مغربی افواج کے ساتھ تعاون کیا تھا اور اب ان کی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔برطانوی اخبار کے مطابق ان افغان شہریوں کے نام قتل کی فہرست میں شامل ہیں اور ان کی ذاتی معلومات فروری 2022 میں ایک غیر محفوظ ای میل کے ذریعے غلطی سے بھیج دی گئی تھیں، جس کے باعث یہ ڈیٹا لیک ہو گیا۔

ان افراد میں سے تقریبا 19 ہزار افراد کے بارے میں تفصیلات افشا ہو چکی ہیں، جنہوں نے برطانوی افواج کی معاونت کی تھی۔رپورٹ کے مطابق اپریل 2024 میں، برطانیہ میں عام انتخابات سے صرف تین ماہ قبل، افغان ری اسپاونس پاتھ وی کے نام سے ایک خفیہ منصوبہ شروع کیا گیا، جس کے تحت ان افغانوں کو دوبارہ آباد کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

اب تک یہ پروگرام تقریبا 400 ملین پانڈ خرچ کر چکا ہے اور مکمل ہونے پر اس کی لاگت 850 ملین پانڈ تک پہنچنے کی توقع ہے۔

قانونی پیچیدگیاں اور ممکنہ زرِ تلافی کے باعث اس رقم میں مزید اضافہ متوقع ہے۔وزارت دفاع کو اس سنگین غلطی کا علم ہونے میں ایک سال سے زائد کا وقت لگا۔ مسئلے کی سنگینی اس وقت سامنے آئی جب اگست 2023 میں یہ معلومات ایک فیس بک گروپ میں جزوی طور پر شائع ہو گئیں۔ ایک سماجی کارکن نے اس وقت کے وزیر برائے مسلح افواج جیمس ہیپی کو بتایا کہ طالبان کے پاس اب 33 ہزار افراد پر مشتمل ایک فہرست موجود ہو سکتی ہے، جو درحقیقت خود برطانوی حکومت سے لیک ہوئی ہے۔

متعدد افغان خاندان پہلے ہی خطرات کا سامنا کر چکے ہیں اور مزید کو جان کا خطرہ لاحق ہے۔ ایک سابق مترجم اور سماجی کارکن رافی ہوتک نے اسے برطانوی حکومت کی جانب سے بدترین خیانت قرار دیا۔ ان کے مطابق جن افراد نے برطانیہ کی خاطر اپنی زندگیاں دا پر لگائیں، انہیں اب بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔برطانوی وزیر دفاع جون ہیلی نے اس معاملے پر پارلیمان میں معذرت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنگین ڈیٹا لیک کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔

فی الوقت برطانیہ کی عدالتوں کے حکم پر نہ تو پارلیمان اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کو اس منصوبے کی تفصیلات جاری کرنے کی اجازت ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ اگر یہ معلومات طالبان کے ہاتھ لگیں، تو 80 ہزار سے ایک لاکھ افراد کو گرفتاری، اذیت یا قتل جیسے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔